روحانیات کی سائنس اور جنات کی توانائی

صاحب علم وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو علم ہونا چاہئیے کہ روحانیات کی سوپر سائنس وہاں ختم ہوتی ہے جہاں اسلامی کیلنڈر بنانے کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔

تصویر: روئٹرز

آپ کو پتہ ہے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب کون سی ہے؟ ’موت کا منظر عرف مرنے کے بعد کیا ہو گا؟‘
جتنے ایڈیشن اس کتاب کے آج تک آ چکے ہیں اتنا چھپ جانا وطن عزیز میں کسی کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔
عین اسی طرح کا معاملہ روحانیات اور سائنس کا ہے۔ آپ کہیں کھڑے تقریر کر رہے ہیں، ایک آدھا قصہ فزکس اور میٹا فزکس کو پیس کر ساتھ دو چار مرتبہ مابعد الطبیعات کا لفظ استعمال کر کے سنا دیجیے۔ آپ کی بات ختم ہونے سے پہلے دعا کروانے والے اور تعویذ کے فرمائش کنندگان نیچے آپ کے انتظار میں کھڑے ہوں گے۔ روحانیات وہ موضوع ہے جس میں ہماری دلچسپی ان حد ہے اور جس کے کنارے ’لامحدود‘ ہیں۔ 
القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے آج عمران خان اگر روحانیات کو سوپر سائنس بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یونیورسٹی کو بھی اسی لائن پر چلانے کا سوچتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ ایسی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ پہلے جنرل ضیا الحق کے دور میں ہونے والی چند فتوحات کا جائزہ لیجیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


’دے کال اٹ اسلامک سائنس‘ نامی تحریر میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے لکھا کہ اسلامی سائنس کانفرنس نامی ایک سیمینار کے لیے جرمنی سے 1983 میں ایک ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔

انہوں نے باقاعدہ الجبرے کے فارمولوں سے خدا کے زاویوں پر بات کرنے کی کوشش کی۔ ’اینگل آف گاڈ‘ پر بات کرنے کے لیے انہیں حکومت پاکستان نے مدعو کیا اور ان کی آمدورفت کے اخراجات بھی برداشت کیے۔ سائنسدان کے مطابق وہ خداواندی زاویہ یہ تھا۔ pi/N۔ جب کہ pi برابر ہے 3.1415927... اور N کو ڈیفائن ہی نہیں کیا جا سکتا۔ (جب سب کچھ لامحدود ہے تو فارمولے سے کیا جواب نکالا جا سکتا ہے؟)
ڈاکٹر صاحب نے مزید لکھا کہ 1986 میں ہونے والے  ’قران اور سائنس‘ نامی سیمینار میں حکومتی ادارے (PCSIR) کی جانب سے ایک ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کسی بھی معاشرے میں پائی جانے والی منافقت کے درجے ناپنے کا سائنسی فارمولا پیش کیا۔ اس فارمولے کی رو سے مغربی معاشرے میں پائی جانے والی منافقت کا لیول 22 تھا جب کہ اسپین اور پرتگال میں پائی جانے والی منافقت 14 درجے پر فائز تھی۔ ہود بھائی کے مطابق حیرت انگیز معاملہ یہ ہوا کہ پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی منافقت کا لیول انہوں نے سرے سے ہی نہیں ماپا۔ 


اسی مقالے میں درج ہے کہ 18 اکتوبر 1987 کو اسلام آباد میں ’سائنٹیفک میریکلز کانفرنس‘ ہوئی جس کا افتتاح جنرل ضیا الحق نے کیا۔ پرویز ہود بھائی کو بھی اس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ مسلم ممالک سے سینکڑوں کی تعداد میں مندوبین کو بلایا گیا تھا۔ کانفرنس کے موضوعات دودھ کی کیمیکل کمپوزیشن سے لے کر فضا میں انسانی جسم کے ردعمل تک پھیلے تھے اور ہر موضوع کا تقابلی جائزہ مقدس کتاب کے حوالوں سے تھا۔ ایک پینل ڈسکشن کا موضوع تھا، ’تھنگز نون اونلی ٹو اللہ‘ یعنی وہ چیزیں جو صرف خدا کو معلوم ہیں۔

 ہود بھائی کہتے ہیں کہ میں اس سیشن میں شرکت سے محروم رہا لیکن سوچا یہی کہ نہ معلوم ایسے کون سے راز ہوں گے جو اس نشست میں سائنس دانوں نے کھولے ہوں گے۔ 
’گمان کیا جا سکتا ہے کہ جن میتھین گیس سے بنے ہوں گے۔ ساتھ میں چند ہائیڈروکاربنز بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ اگر یہ بھسم کیے جائیں تو ایسا شعلہ اٹھتا ہے جس کا دھواں نہیں ہوتا۔‘ 

ڈاکٹر صاحب کے مطابق اسی زمانے میں ایک سینئیر سائنس دان نے یہ نظریہ پیش کیا اور اپنے مقالے کا نتیجہ ان الفاظ پر ختم کیا: ’مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ جنات لازمی طور پہ سفید فام نسل سے ہوتے ہوں گے۔‘ یہی تحقیق اس بات پر ختم ہوئی کہ پاکستان کا انرجی بحران جنات کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے حل کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام کانفرنسوں کو بھی پاکستانی یونیورسٹیوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ 


مسئلہ کہاں پر ہے؟ شاید وہی صدیوں پرانا کہ ہم جو چیز نہیں جانتے اس کے بارے میں انتہائی دیانت داری سے خود پر مکمل یقین رکھتے ہوئے اپنے سارے نظریات سائنسی تڑکا لگا کر پیش کر دیتے ہیں۔ حکومتیں ایسا بیان اس وقت دیتی ہیں جب ان کے پاس کہنے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ابھی حال ہی میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا بیان آیا کہ ’پانچ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں سپارکو، محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی اگلے دس سال کے چاند، عیدیں، محرم اور رمضان سمیت دیگر اہم تاریخوں کا کیلنڈر جاری کرے گی۔ اس سے ہر سال پیدا ہونے والا تنازع ختم ہو گا۔‘
صاحب علم وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو علم ہونا چاہئیے کہ روحانیات کی سوپر سائنس وہاں ختم ہوتی ہے جہاں اسلامی کیلنڈر بنانے کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔ سرکار جہاں چاند دیکھنے والوں کی گواہی لازمی ہو ادھر آپ کیسے دس برس پہلے ایک کیلنڈر کھڑا کر سکتے ہیں؟ سائنس اور مذہب کے اس ملاپ کی لازوال کوششیں بھارت میں بھی ہو چکی ہیں۔ 
تین چار ماہ پہلے انڈین سائنس کانگریس کے 106ویں اجلاس میں آندھرا یونیورسٹی کے وی سی جی ناگیشور راؤ نے انکشاف کیا کہ رامائن کے زمانے میں ہوائی جہاز موجود تھے اور 24 جہاز اس وقت کے ہندو بادشاہ اپنے ذاتی فلیٹ میں رکھتے تھے۔ ایک اور وائس چانسلر کے مطابق ہندو ماہرین ہزاروں برس پہلے سٹیم سیل پر تحقیق کر چکے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رامائن میں مذکور کوروؤں کے بادشاہ کے یہاں اولاد ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی ہوئی تھی۔

انتہا وہاں ہوئی جہاں تامل ناڈو کے ایک سائنس دان نے کشش ثقل کی لہروں (گریویٹیشنل ویوز) کا نام ’نریندر مودی‘ لہریں رکھنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مثبت رپورٹنگ ٹائمز آف انڈیا کی تھی اور اس کانفرنس کو نریندر مودی جی کی حمایت حاصل تھی۔ تو ایسے شگوفے ہر اس جگہ اٹھتے ہیں جہاں ریاست مذہب اور سائنس کے درمیان حدوں میں آنکھ مچولی کھیلتی ہو۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے آج روحانیات کی سوپر سائنس کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ، ’صدیوں سے ہر مذہب اپنے ساتھ سائنس کو ملانے کی کوششیں کر رہا ہے لیکن مکمل بے سود اور مکمل ناکام۔‘ 
کل ملا کر یہی عرض کی جا سکتی ہے کہ سرکار، جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر کسی ادارے کو چلانا ہے تو پہلے دن سے ہی اس کی نظریاتی پہچان کے ساتھ کنفیوژن نہ رکھیے۔ یا تو اسے مکمل مذہبی رہنے دیجیے یا اسے ایک مکمل سائنسی ادارہ بننے دیجیے۔ اگر اسی ٹریک پر چلتے رہے تو آغا وقار جیسے بہت آئیں گے جو پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کرتے ہوں لیکن ابن الہیثم، جابر بن حیان اور ابنِ رشد جیسا اک بھی نصیب نہیں ہو گا جس نے کبھی اپنی جانوں پر کھیل کر سچ بولنے کی ہمت کی ہو! 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ