وزارت خارجہ میں انتظامی اصلاحات کی ضرورت کیوں؟

حال ہی میں وزارت خارجہ میں انتظامی امور کی حالت زار پر کچھ اخباروں میں طبع آزمائی کی گئی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ جیسے وزارت خارجہ انتظامی جمود کا شکار ہے۔

وزارت خارجہ کارکردگی کے معیار سے پاکستان کی بہترین وزارت ہے اور یہ انتہائی مشکل حالات اور محدود وسائل کے باوجود پاکستان کے بین الاقوامی مفادات کا بہترین طریقے سے دفاع کرتی رہی ہے۔ اس لیے انتظامی جمود اور تناؤ کا فوراً خاتمہ اشد ضروری ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق تقریباً 20 سے زیادہ سفیروں اور قونصل جنرل کی پوزیشن پچھلے تقریباً چھ  ماہ سے خالی پڑی ہیں اور ابھی تک وزارت خارجہ اور پرائم منسٹر ہاؤس ان کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ان اہم دارالخلافوں میں اتنی زیادہ عرصہ ہماری نمائندگی نہ ہونا ایک تشویشناک بات ہے۔ ٹوکیو، جنیوا، سنگاپور، کوالالمپور، نیویارک، فرینکفرٹ اور کئی دیگر ممالک بغیر سفیر یا قونصل جنرل کے کام کر رہے ہیں۔ پرتگال میں تقریباً دو سال سے کوئی سفیر تعینات نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ نئی حکومت کے آتے ہی کچھ اہم ممالک میں سفیروں کی تعیناتی سے بھی سینیئر افسروں میں بےچینی پھیلی۔ کچھ انتہائی قابل افسروں کو نظر انداز کرکے قدرے جونیئر افسران کو ان پوزیشن پر لگایا گیا جس سے وزارت خارجہ میں مورال انتہائی نیچے آیا۔ ان سب اقدامات سے ایسے لگتا ہے کہ یہ تمام تبادلے کسی خاص منصوبہ بندی اور سوچ بچار کے بغیر کیے گئے ہیں۔ جن افسروں کے تبادلے کیے گئے یا جنہیں نظرانداز کیا گیا اس میں کچھ خاص حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ بعض تبادلوں کے سلسلے میں اقربا پروری کے الزامات بھی لگے۔ ان سب تبادلوں میں ہمیں رہنما اصولوں کی پاسداری نظر نہیں آئی جس سے یقیناً قابل افسروں میں مایوسی پھیلی اور اس یقین میں پختگی آئی کہ قابلیت یا محنت کی بجائے آپ کو اچھی سفارت کے لیے اہم لوگوں کے قریب ہونا چاہیے۔

نئی حکومت آنے کے بعد سیاسی قیادت نے بھی ان فیصلوں میں اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ وزارت خارجہ کی تاثیر کو متاثر کرتا ہے۔ وزارت خارجہ کی انتظامیہ نے بھی اس سلسلے میں اپنے پہلے سے وضع کردہ اصولوں سے درگزر کیا ہے۔ سال 2014 اور 2015 میں اس وقت کی انتظامیہ نے ایک گہرے مطالعے کے بعد تبادلوں کے لیے بعض رہنما اصول متعین کر دیے تھے۔ ان پر کچھ عرصہ سختی سے عمل کیا گیا اور افسروں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا لیکن انتظامیہ کی تبدیلی کے فورا بعد ان اصولوں سے انحراف شروع کر دیا گیا جو کہ ابھی تک جاری ہے۔ بعض افسروں کی بیرون ملک قیام کی مدت جوکہ عموما تین سال ہوتی ہے وہ نو سالوں پر محیط ہے جو مزید مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس اہم وزارت میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بےاطمینانی کو ختم کیا جائے اور تبادلوں میں اہلیت، سینیارٹی اور انصاف پر مبنی گردش کا خیال رکھا جائے۔ اس سلسلے میں جو بھی اصول ایک دفعہ بنا لیے جائیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ افسران جو نسبتا اہم عہدوں پر وزارت خارجہ میں کام کر رہے ہیں یہ اصول ان پر سب سے پہلے لاگو کیے جائیں۔ اگر آپ وزیر خارجہ یا سیکریٹری خارجہ آفس یا ایڈمنسٹریشن میں کام کر رہے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ صرف یہی افسران پرکشش تبادلوں کے حقدار ہیں۔ اس سلسلے کی ابتداء وزیر خارجہ اور فارن سیکرٹری کو اپنے آفس سے کرنی ہوگی اور یقینا یہ روایت وزارت خارجہ کی انتظامی معاملات میں درست سمت متعین کرے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ایسے افسران کو بھی حال ہی میں اہم سفارتی ذمہ داریوں کے لیے منتخب کیا گیا ہے جو کہ کئی دفعہ اپنی پہلی ذمہ داریوں سے قبل از وقت بلا لیے گئے تھے۔ ان پر نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کی گئی تھیں۔ اگر یہی بری کارکردگی کی سزا ہے تو اچھا کام کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ کچھ افسران تعلقات کی وجہ سے طے شدہ دو پوسٹنگ سے ہٹ کر تیسری مسلسل پوسٹنگ لینے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیا ایسے اقدامات کسی ادارے کی بہتری میں معاون ہوسکتے ہیں؟

 افسروں کی ہمت افزائی کے لیے ہمیں ایکسٹینشن کا کلچر بھی ختم کرنا ہوگا۔ ہمارے کئی اہم سفارتی مشنز میں سفرا مسلسل توسیع پر ہیں جو کہ وزارت خارجہ کے محنتی اور قابل افسران کے لیے حوصلہ شکن بات ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا متبادل نہیں مل پاتا؟ کیااحمد کمال، انعام الحق، شمشاد احمد، منیر اکرم اور مسعود خان کا تعلق فارن سروس سے نہیں تھا؟ کیا سروس نے ایسے قابل افسر پیدا کرنے بند کر دیئے ہیں؟ ہرز نہیں۔ قابل افسران موجود ہیں اور انہیں موقع دیا جانا چاہیے۔ اگر فورا انتظامی اصلاحات کا سلسلہ شروع نہ کیا گیا تو یہ وزارت خارجہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر