بی بی سی انٹرویو والدین کا رشتہ مزید خراب کرنے کی وجہ بنا: شہزادہ ولیم

1995 میں شہزادی ڈیانا کا انکشافات سے بھرا انٹرویو ’دھوکے بازی‘ سے حاصل کرنے کے الزامات کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد شہزادہ ولیم اور ہیری نے میڈیا اور بی بی سی کے رویے کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’غیر اخلاقی‘ قرار دیا ہے۔

غیر جانبدارانہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ برطانوی صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں ویلز کی شہزادی ڈیانا کے ساتھ ایک چشم کشا انٹرویو حاصل کرنے کے لیے ’دھوکے بازی‘ سے کام لیا۔

اس تحقیقات کے بعد لیڈی ڈیانا کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور ہیری نے بی بی سی اور میڈیا پر شدید تنقید کی ہے۔

ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ وہ یہ جاننے کے بعد ’ناقابل بیان‘ اداسی کا شکار ہیں کہ اس ادارے کی غلطیوں نے ان کی والدہ کی زندگی کے آخری سالوں کے دوران ان کی ذہنی حالت کو متاثر کرنے میں ’بڑا کردار‘ ادا کیا۔ 

جبکہ ڈیوک آف سسیکس شہزادہ ہیری نے اپنی ’غیر معمولی‘ والدہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر اخلاقی اقدار پر بار بار عمل کرنے کے استحصالی اور تباہ کن رجحان ان کی والدہ کی جان لینے کا سبب بنا۔‘

دونوں بھائیوں نے جمعرات کی شام کو الگ الگ بیانات جاری کیے۔

 

صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں بی بی سی کے لیے شہزادی ڈیانا کا ایک انٹرویو کیا تھا، جس میں ڈیانا نے اپنی شادی اور شاہی خاندان کے بارے میں کئی انکشافات کیے تھے۔

تاہم اس انٹرویو کو حاصل کرنے میں ’دھوکے بازی‘ کے الزامات کے بعد 18 نومبر، 2020 کو بی بی سی کے بورڈ نے لارڈ ڈائسن کو تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی جس کی رپورٹ 20 مئی کو تیار ہوئی۔

لارڈ ڈائسن کی رپورٹ پر ڈیوک آف کیمرج کا بیان

شہزادہ ولیم کا کہنا تھا کہ وہ اس رپورٹ پر لارڈ ڈائسن اور ان کی ٹیم کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہا: ’میں اس بات کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ بی بی سی نے لارڈ ڈائسن کی رپورٹ کو مکمل طور پر قبول کر لیا، جو کہ ایک تشویش ناک رپورٹ ہے کہ بی بی سی کے ملازمین نے میری والدہ سے انٹرویو لینے کے لیے جھوٹ بولا اور جعلی کاغذات حاصل کیے۔

’انہوں نے شاہی خاندان کے بارے میں بے ہودہ اور جھوٹے دعوے کیے جس نے میری والدہ کے خوف اور پریشانیوں میں اضافہ کیا۔

’انہوں نے پروگرام کے بارے میں تشویش اور شکایات کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، میڈیا کو مکمل بات نہیں بتائی اور اپنی اندرونی تحقیقات میں جو معلوم ہوا اسے چھپایا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہزادہ ولیم کا مزید کہنا تھا: ’میرے خیال میں جس دھوکے بازی سے یہ انٹرویو کرنے کی کوشش کی گئی وہ میری والدہ کی باتوں پر اثر انداز ہوا۔ یہ انٹرویو میرے والدین کے رشتے کو مزید خراب کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ تھا جس سے کئی لوگوں کو تکلیف پہنچی۔‘

’اس بات کو جاننا بہت تکلیف دہ ہے کہ بی بی سی کی ناکامی نے ان کے خوف، پریشانی اور تنہائی میں بڑا کردار ادا کیا جو مجھے ان کے آخری برسوں میں یاد ہیں۔‘

انہوں نے بیان میں مزید کہا: ’مجھے جو چیز سب سے زیادہ افسردہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بی بی سی نے 1995 میں اٹھائے جانے والے اعتراضات اور شکایات کی درست انداز میں تحقیق کی ہوتی تو میری والدہ کو معلوم ہوتا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔

’انہیں نہ صرف ایک دھوکے باز رپورٹر نے دھوکہ دیا بلکہ بی بی سی کے اعلیٰ حکام نے بھی ایسا کیا کیونکہ انہوں نے سخت سوال پوچھنے کی بجائے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ 

’میرا یہ ماننا ہے کہ اس پروگرام کی کوئی حیثیت نہیں اور اسے دوبارہ کبھی نشر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک غلط موقف کو فروغ دیتا ہے جو کہ 25 سال سے رائج ہے اور اسے بی بی سی اور دوسروں نے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

 

انہوں نے مزید کہا: ’بی بی سی اور وہ سب جنہوں نے اس حوالے سے لکھا یا لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کو اس رائج موقف کے حوالے سے کام کرنا ہو گا۔

’جعلی خبروں  کے اس دور میں پبلک نشریاتی ادارے اور آزاد پریس بہت زیادہ اہم ہیں۔ ایسی ناکامیاں جن کی نشاندہی تحقیقاتی صحافیوں نے کی ہے، نے نہ صرف میری ماں اور میرے خاندان کو مایوس کیا بلکہ انہوں نے عوام کو بھی مایوس کیا۔‘    

ڈیوک آف سسیکس شہزادہ ہیری کا بیان 

ڈیانا کے چھوٹے بیٹے شہزادہ ہیری نے کہا: ’ہماری والدہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی زندگی خدمت میں گزار دی۔ وہ ڈٹ جانے والی، بہادر اور بلا شک و شبے ایک ایماندار خاتون تھیں۔ غیر اخلاقی عوامل پر مبنی استحصالی اور تباہ کن رجحان نے ان کی جان لے لی۔‘

انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کچھ احتساب کیا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کی۔

بیان میں انہوں نے مزید کہا: ’یہ انصاف اور سچ کی سمت پہلا قدم ہے۔ اس کے باوجود مجھے تشویش ہے کہ اس طرح کے طریقے اور ان سے بھی بدتر، اب بھی جاری ہیں۔ تب اور اب یہ ایک ادارے، ایک نیٹ ورک یا ایک نشریاتی ادارے سے بڑا مسئلہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہماری ماں نے اس وجہ سے اپنی جان گنوا دی اور ابھی تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ ان کی یادگاروں کو محفوظ رکھتے ہوئے ہم سب کی حفاظت کریں گے اور اس وقار کو قائم رکھیں گے جس کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاری تھی۔

’ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ وہ کون تھیں اور وہ کس طرح ڈٹ کر کھڑی رہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا