’کرونا سے پہلے چینی لیبارٹری کے تین ریسرچر بیمار ہو چکے تھے‘

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کو پتہ چلا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا شروع ہونے سے پہلے چینی شہر ووہان کی لیبارٹری میں کام کرنے والے تین ریسرچرز اتنے بیمار ہوئے کہ انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا۔

ووہان انسٹی ٹیوٹ  خاص طور پر چمگادڑوں پر تحقیق کرتا ہے(اے ایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کو پتہ چلا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا شروع ہونے سے پہلے چینی شہر ووہان کی لیبارٹری میں کام کرنے والے تین ریسرچرز اتنے بیمار ہوئے کہ انہیں ہسپتال داخل کروایا گیا۔

ٹرمپ انتظامیہ اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما اس وبا کے سارے عرصے میں چین کی ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی سے وائرس 'وائرس کے لیک ہونے' کے نظریے پر زور دیتے رہے ہیں۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ کے سابق اور موجود حکام نومبر 2019 میں چینی لیبارٹری کے سائنس دانوں کے بیماری میں مبتلا ہونے کے معاملے پر منقسم رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔

ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں خفیہ معلومات امریکہ کے ایک بین الاقوامی پارٹنر سے ملیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اور عہدے دار نے اخبار کو بتایا کہ خفیہ معلومات اس سے زیادہ جاندار ہیں۔اندر کی خبر رکھنے والے عہدے دار کے بقول: ’ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ مختلف ذرائع سے ملنے والی اعلیٰ معیار کی معلومات ہیں۔

’یہ معلومات بالکل واضح ہیں۔ان سے جو بات آپ کو پتہ نہیں چلتی وہ یہ کہ لیبارٹری کے عملے کی بیماری کی درست وجہ کیا تھی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ اندازے کے مطابق نومبر2019 وہ مہینہ ہے جب لوگ ووہان میں وائرس سے متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے جبکہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے کیس کی تصدیق آٹھ نومبر، 2019 کو ہوئی تھی۔

ووہان انسٹی ٹیوٹ نے، جو خاص طور پر چمگادڑوں پر تحقیق کرتا ہے، عالمی وبا کے دوران اپنا ڈیٹا، لیب ریکارڈز اور حفاظتی انتظامات کی تفصیل عام نہیں کی۔

چینی حکومت اس بات کی سختی سے تردید کرچکی ہے کہ وائرس اس کی کسی ایک لیبارٹری سے باہر آیا ۔ چینی حکومت نے اس نظریے کو یہاں تک دعویٰ کر کے حملے کا نشانہ بنایا کہ وائرس امریکی لیبارٹری سے خارج ہوا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس اس وائرس کے پھیلاؤ کی تحقیقات میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مکمل حمایت کرتا ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں پانچ لاکھ 89 ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔

یہ رپورٹ ڈاکٹر انتھنی فاؤچی کے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’وہ قائل نہیں‘ کہ کووڈ19 کی بیماری قدرتی تھی۔ انہوں نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات پر زور دیا۔

حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی امریکی ویب سائٹ ’پولیٹی فیکٹ‘ سے تعلق رکھنے والی کیٹی سینڈرز نے ڈاکٹر فاؤچی سے پوچھا ہے کہ آیا انہیں ’اب بھی یقین ہے کہ یہ قدرتی طور پروجود میں آئی۔‘

انہوں نے یہ سوال ’یونائیٹڈ فیکٹس آف امریکہ‘ کے دوران کیا جو حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے ہونے والا فیسٹیول ہے۔

ڈاکٹر فاؤچی نے جواب دیا: ’حقیقت میں ایسا نہیں۔ میں اس بارے میں قائل نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت تک تحقیقات جاری رکھنی چاہیے کہ چین میں کیا ہو رہا تھا جب تک ہم اپنی وہ بہترین صلاحیت سامنے لانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جس کی مدد سے جانا جا سکے کہ کیا ہوا تھا۔‘

ڈاکٹر فاؤچی نے، جو امریکہ کے الرجی اور متعدی بیماریوں سے متعلق ادارے(این آئی اے آئی ڈی) کے ڈائریکٹر ہیں، اس سے پہلے اس ماہ یہ تبصرہ کیا تھا لیکن اس وقت ان کی بات بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں کیا گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فاؤچی نے مزید کہا: ’یقینی طور پر جن لوگوں نے اس معاملے میں چھان بین کی ان کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ وائرس جانوروں سے نکلا ہو جس نے بعد میں انسانوں کو متاثر کیا لیکن معاملہ دوسرا بھی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں ہمیں پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔

’اس لیے آپ جانتے ہیں کہ یہی وہ وجہ ہے جس کی بنیاد پر میں مکمل طور پر ایسی کسی بھی تحقیقات کے حق میں ہوں جو وائرس کے ماخذ کو دیکھے۔‘

بائیڈن انتظامیہ نے امریکی اخبار کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن اس نے کہا کہ تمام قابل اعتماد نظریات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’کووڈ19 کے بالکل شروع کے دنوں کے بارے میں ہمارے سامنے سوالات آنے کا سلسلہ جاری ہے جن میں چین میں اس کے ماخذ کے بارے میں سوالات شامل ہیں۔

’دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وبا کا آغاز کیسے ہوا تاکہ ہم اپنی حکومتوں، لوگوں اور عوامی صحت کے ادروں کو مستقبل میں صحت کے بحرانوں کے لیے تیار کر سکیں۔

’یہی وجہ ہے کہ ہم ڈبلیو ایچ او اور ادارے کے دوسرے رکن ملکوں کے ساتھ مل کر ماہرین کی مدد سے سائنسی بنیاد پر وبا کے ماخذ کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ عمل کسی مداخلت یا سیاست سے پاک ہے۔

’ہم ایسے اعلانات نہیں کریں گے جو ڈبلیو ایچ او کی طرف سے سارس کوو۔ٹو کے ماخذ کی چھان بین پراثر انداز ہوں لیکن اس معاملے میں ہمارا ذہن صاف ہے کہ عالمی ماہرین کو ٹھوس اور تکنیکی اعتبار سے قابل اعتماد نظریات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا