بڑھتی ہوئی غربت کا مقابلہ

پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔

پشاور میں خواتین غربت کے خاتمے کے سرکاری احساس پروگرام کے تحت امداد کے لیے انتظار میں بیٹھی ہیں (فائل تصویر:اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


پاکستان پچھلے 23 سالوں سے ایک ایٹمی قوت ہے مگر اس کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد ابھی بھی غربت کی لکیر کے قریب یا اس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ غربت کے اعدادوشمار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

جنوبی ایشیا میں جاری عسکری برتری کی دوڑ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے عوام کو غربت کی دلدل میں مسلسل دھکیلا جا رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں پچھلے 73 سالوں میں غربت میں غیرتسلی بخش مگر بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، مگر حالیہ اعداد و شمار ابھی بھی تشویش کا باعث ہیں۔ 2018 میں پاکستان کی آبادی کی 31.3 فیصد تعداد یعنی تقریباً سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھی۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔

کرونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور 2021 کے اعدادوشمار مزید تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ ان مایوس کن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں غربت کی شرح 31.4 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 49 فیصد اور بلوچستان میں خوفناک 71 فیصد ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم، صحت اور زندگی بسر کرنے کے لیے بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق کرونا وبا کی وجہ سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں غربت پچھلے نو سالوں کے مقام پر واپس آ سکتی ہے۔

حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 56.6 آبادی فیصد کرونا وبا کے بعد اس وقت سماجی اور معاشی خطرات میں مبتلا ہے۔ غربت کی لکیر سے قدرے اوپر ہونے کے باوجود یہ آبادی غربت کے بہت قریب آ گئی ہے اور اپنی قلیل اور مزید کم ہوتی ہوئی آمدنی اور بڑھتے ہوئے افراط زر سے اپنے خاندان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

پچھلے دو سالوں میں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصا اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30  فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔

اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غربت کی وجہ سے شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فیصد بچے مڈل سکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 2 فیصد کے قریب ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں کے تین سال کی عمر کے صرف 8.5 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد اس سے بھی کم ہے۔

کیا پاکستان میں اس کمرتوڑ غربت کا خاتمہ ممکن ہے؟ یقیناً یہ ناممکن کوشش نہیں اور ہمیں اس میں پچھلے 73 سالوں میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں مگر اس جہد مسلسل میں پچھلی دو دہائیوں میں وہ تسلسل دکھائی نہیں دیا جو اس سے پہلے حاصل کامیابیوں کو بھی خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔

غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں سماجی منصوبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے تین بنیادی میدانوں یعنی آبادی میں اضافے، تعلیم اور ٹیکس وصول کرنے کے نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان آبادی میں اضافے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی خطرناک دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور 2050 میں ہماری آبادی 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہوگی۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے مختلف فلاحی سہولتیں مہیا کرنا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی سے نہ صرف غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا بلکہ جرائم کی تعداد بھی بڑھے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئے اور سارے شراکت داروں کو ساتھ ملا کر آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل درآمد کرائے۔

کافی ترقی پذیر ممالک، خصوصاً مسلمان ممالک جن میں بنگلہ دیش، ایران، انڈونیشیا اور ملائیشیا شامل ہیں، نے ان منصوبوں پر کامیابی سے عمل کرتے ہوئے آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روک کر اپنے ممالک میں غربت میں نمایاں کمی لائی ہے۔

پاکستان کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے اور اس وقت غربت کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے۔ یہ ان پڑھ بچے بڑے ہوکرغربت، بے روزگاری اور جرائم میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔

غربت میں اضافے کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کے موجودہ فرسودہ اور بدعنوان نظام کی وجہ سے ریاست کو ضروری وسائل مہیا نہیں ہو پاتے جن کی وجہ سے مختلف فلاحی منصوبوں اور سماجی شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔

ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیا پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے۔

اس غیر منصفانہ نظام میں اصلاحات، جن میں غریبوں پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہو، سے غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے زندگی بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

غربت میں کمی پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جلد ہی ہم ایک پرتشدد سماجی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ