’پتہ نہیں وہ چینی لڑکا میری بیٹی کو کہاں لے گیا؟‘

پشاورکی فریدہ بی بی کی کہانی جن کی بیٹی چینی لڑکے سے شادی کے بعد لاپتہ ہو گئی۔

پشاور کے پوش علاقے کے سرونٹ کوارٹرز میں مسیحی خاتون فریدہ بی بی اپنے چار بچوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں۔

فریدہ اور ان کی بڑی بیٹی مسکان لوگوں کے گھروں میں کام کرکے بمشکل روزمرہ کے اخراجات پورے کرتے تھے۔

مسکان نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ اس کے لیے ایک چینی لڑکے کا رشتہ آیا، جو مسکان کی خالہ شہلا لے کرآئی تھی۔

فریدہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی اتنی دور نہیں بیاہنا چاہتیں لیکن مسکان نے جب خود کو ایک ان دیکھے دیس کے خوبصورت سرسبز باغ میں پھولوں کے درمیان ایک نوجوان لڑکے کے ساتھ ملکہ کی طرح قدم سے قدم ملا کر چلتے تصور کیا تو فوراً ہامی بھر لی۔

فریدہ کہتی ہیں: ’میں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ اچھی طرح سے سوچ لو کیا تم خوش رہ سکو گی؟ لیکن وہ دولت کی چمک دیکھ کر دھوکہ کھا گئی اور تین مہینے پہلے فروری میں سوبینجی کے ساتھ مسکان کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد وہ صرف ایک مرتبہ اپنے گھر آئی اور اب مجھے اس سے بات بھی نہیں کرنے دی جا رہی۔ پتہ نہیں وہ چینی لڑکا میری بیٹی کو کہاں لے گیا۔‘

فریدہ کے مطابق، شہلا کی ایک دوست لبنیٰ پشاور میں رضاعلی باقر نامی شخص کے ساتھ مل کررشتوں کا کام کرتی ہیں۔ رضا کا تعلق گلگت سے ہے اور رہائش اسلام آباد میں۔

ر ضا چین کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے چینی زبان پر مہارت رکھتے ہیں، لہٰذا وہ رشتے کراتے وقت ترجمانی کا کام بھی کر لیتے ہیں۔

مسکان سے شادی کے وقت چینی دولہے نے سٹامپ پیپر پر30 لاکھ روپے لکھے تھے، جس کے مطابق یہ رقم مطالبے پر ادا کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ سوبینجی نے شادی کے وقت مسکان کی والدہ کو ڈیڑھ لاکھ روپے نقد ادا کرنے کے علاوہ شادی کے تمام اخراجات بھی اٹھائے تھے۔

سوبینجی کے ترجمان رضا علی نے فریدہ کو بتایا کہ وہ مستقبل میں ان کی مزید مدد کرے گا۔ فریدہ بی بی اب رو رو کر ایک ہی التجا کر رہی ہیں کہ ان کی بیٹی کوآزاد کرایا جائے۔

ان کا سوال ہے کہ چینی مرد اتنے پیسے خرچ کر کے پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اور جب وہ شادیاں کر بھی لیتے ہیں تو لڑکیوں کو ان کے والدین سے بات کیوں نہیں کرنے دیتے اور وہ غریب گھرانے کی لڑکیوں سے ہی کیوں شادی کرتے ہیں؟

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق دھوکے بازوں کے مختلف گروہوں کے ذریعے پچھلے تین سالوں میں تقریباً تین سو سے چار سو کے قریب لڑکیاں چین بھجوانے کے شواہد ملے ہیں۔

چین کے مختلف شہروں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں لڑکیوں سے جسم فروشی کے علاوہ اعضا نکال کر فروخت کرنے کا کام بھی ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین