خلا میں معدنیات کی تلاش، حقیقت یا سائنس فکشن؟

کیا سیارچوں پر معدنیات کی تلاش ممکن ہے؟ جی ہاں، لیکن اس کے لیے بہادر سرمایہ کاروں کی ضرورت ہو گی۔

سیارچوں پر کان کنی کا خیال برا نہیں لیکن ان پراترنا آسان کام نہیں (پکسا بے)

جدید دور کے سیاسی بیانیے کے بنیادی ترین موضوعات میں سے ایک وسائل کا محدود ہونا ہے۔ اس کرۂ ارض پر تمام وسائل انتہائی محدود ہیں اور انہیں محتاط انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا جا چکا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر کائنات میں ہرگز ایسا نہیں۔

ہمارا نظام شمسی قدرتی وسائل سے اس قدر مالا مال ہے کہ آئندہ لاکھوں برس تک انسانی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ مسئلہ ان کی موجودگی کا نہیں بلکہ ہماری رسائی کا ہے۔

نظام شمسی میں ایسا ہی ایک خزانہ پتھروں کے ان بڑے بڑے لاکھوں ٹکڑوں کی صورت میں موجود ہے جنہیں عام طور پر ہم سیارچے کہتے ہیں۔ جہاں تک ناقابل تسخیر خزانوں کی بات ہے تو سیارچوں میں خام معدنیات کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کروڑوں میل کے فاصلے پر اور شمسی مدار میں زمین سے بالکل مخالف سمت میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے سائنس دان (اور کچھ کاروباری افراد) سیارچوں تک پہنچنے کا سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں لیکن ان کا مقصد تحقیق نہیں بلکہ وہاں موجود وسائل پر قبضہ جمانے کی اکلوتی خواہش ہے۔

امریکہ میں سیاروں کے وسائل اور خلائی صنعتیں جیسے ناموں سے کمپنیاں بن چکی ہیں جن کا مقصد سیارچوں پر معدنیات کی تلاش ہے۔

ایک فٹبال میدان کے سائز کے سیارچے میں 50 ارب ڈالر مالیت کا پلاٹینم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال الگ ہے کہ اتنا وزن زمین پر کیسے منتقل کیا جائے گا۔ کسی مادی مواد کی قیمت کا تعین بالعموم مارکیٹ فورسز طے کرتی ہے (طلب اور رسد کا اصول)۔ اگر خلائی صنعت کاروں نے تسلسل کے ساتھ پلاٹینم زمین تک پہنچانا شروع کر دیا تو اس کی قیمت تیزی سے اس قدر گرے گی کہ اس منصوبے کی لاگت بھی پوری نہ ہو سکے گی۔

اکثر سیارچے اتنے بڑے ہیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ واقعی سیارچے ہمارے لیے کبھی کم نہ پڑیں گے۔ عالمی قانون کے تحت کوئی شخص کسی سیارچے کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ ایسا بھی نہیں کہ کسی کمپنی کے لیے کسی سیارچے پر معدنیات کی تلاش اور اس سے مستفید ہونے پر کوئی پابندی ہو۔ ایسی غیر حقیقی رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس تصور کو کس قدر سنجیدگی سے لینا چاہیے؟

اگر آپ زندگی بھر کی جمع پونجی اس کام میں لگانے کا سوچ رہے ہیں تو معروف بینکنگ گروپ گولڈ مین سیکس کی درج ذیل نصیحت پڑھ لیجیے۔ اس ادارے نے پہلے ہی اپنے ممکنہ سرمایہ کاروں کو یہ نصیحت کر رکھی ہے کہ ’سیارچوں پر کان کنی کی راہ میں نفسیاتی ہچکچاہٹ اصل مالی اور تکنیکی رکاوٹوں کی نسبت زیادہ ہے۔‘

پہلی نظر میں گولڈ مین سیکس جیسے معتبر ادارے کی بات قابل توجہ لگتی ہے لیکن جب آپ اسے مزید باریک بینی سے دیکھیں تو یہ ساری مہم رد کرنا مشکل نہیں رہتا جو محض ایک خیالی پلاؤ محسوس ہوتی ہے۔ ابھی اگر زمین سے قریب ترین سیارچے خالص ہیرے کے بھی بنے ہوں تو پھر بھی زمین تک سارا مواد منتقل کرنا کم خرچ بالا نشیں والا حساب نہیں ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یقیناً کچھ لوگ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 روبوٹس کی کامیاب تحقیقات کی بدولت گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سیارچوں کے بارے میں ہماری تفہیم بہت بہتر ہوئی ہے۔ 2020 میں ناسا کے خلائی مشن OSIRIS-REx نے بینو نامی سیارچے سے پتھروں کے چند نمونے اکٹھے کیے اور اب وہ زمین کی طرف واپس آ رہے ہیں۔ جاپانی خلائی ایجنسی نے بالکل ایسا ہی کام ایک دوسرے سیارچے پر کیا اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ دونوں زمین تک پہنچ جائیں گے، بہت جلد ہمارے پاس دونوں اجسام پر تجربہ گاہ کے تحقیق شدہ اعداد و شمار ہوں گے۔

لیکن یہیں پر کیوں رک جانا؟ اگر معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی سیارچے پر بہت سی معدنیات ہیں تو اس کا مطلب ہے یقیناً سیارچے پر کان کنی ہو سکتی ہے؟

اس موقعے پر یہ ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ممکن ہے اس کی ضرورت ہی نہ ہو۔ کم پڑتی معدنیات پر بات کرنا فیشن بن چکا ہے لیکن ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ جب ہم زمین پر خام دھاتوں کی کمی کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ محض ان تک محدود رہتی ہے جن تک رسائی اور ان پر کام کرنا آسان ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ سنگ خارا (گرینٹ) کی کسی چٹان کی اجزائی ترکیب ہماری سوچ سے بھی زیادہ عجیب ہے اور معدنیات کے حصول کی خاطر سنگ خارا نہ کھودنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس میں معدنیات نہایت خام کیمیائی حالت میں ہوتی ہیں۔ زیادہ پتھروں تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ عمودی شکل میں کھدائی کریں۔ لامحدود طاقت کے ساتھ ہم زمین کھود کر اپنی مرضی کی کوئی بھی چیز نکال سکتے ہیں اگرچہ اس وقت دور دراز خلا میں کسی پتھر کو ڈھونڈنے کی نسبت لامحدود طاقت زیادہ مشکل امر نظر آتا ہے۔

ہم دو طرح سے سیارچوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ جس جگہ پر ہیں اسی جگہ ان سے معدنیات نکالیں (تقریباً 20 کروڑ میل دور اگر وہ ’بینو‘ پر ہیں) یا ہم حسب خواہش انہیں زیادہ مناسب جگہ لے جائیں اور وہاں ان پر کام کریں۔ ابھی بالکل حالیہ عرصے تک ناسا ایک چھوٹے سیارچے کو چاند کے مدار میں لے جانے، وہاں اس کا جائزہ لینے بلکہ اسے کھودنے تک پر غور کرتا رہا۔ Asteroid Redirect Mission کہلایا جانے والا یہ تحقیقاتی منصوبہ اوباما نے شروع کیا تھا لیکن بعد میں ٹرمپ نے اسے ختم کرتے ہوئے ناسا کو چاند کے مدار میں انسانی سواری والی مشین بھیجنے کی ہدایات دیں۔ اگر وہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا تو ممکن ہے سیارچے پر معدنیات کی تلاش میں حائل نفسیاتی رکاوٹ کافی حد تک کم ہو جاتی۔

زیادہ تر سیارچے مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان میں پائے جاتے ہیں اور ان تک رسائی کافی مشکل ہو گی۔ سب سے بڑا سیارچہ سیرس (Ceres) ہمارے اپنے چاند کی چھوٹی شبیہ جیسا لگتا ہے جس کا ماضی قریب میں امریکی تحقیقاتی مشن نے دورہ کیا اور اس کی تفصیلات کامیابی سے محفوظ کیں۔ تاہم کافی مناسب تعداد ایسی بھی ہے جنہیں ’زمین کے قریب ترین سیارچے‘ کہا جاتا ہے اور اس طرح سے ان تک رسائی نسبتاً آسان ہے۔ اگر ہم خلا سے معدنیات ڈھونڈنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوئے تو ممکنہ طور پر انہیں سے شروع کریں گے۔

خلائی پرواز میں ایک بنیادی مسئلہ جو پیش نظر رہنا چاہیے وہ ہے اسکیپ ولاسٹی یعنی زمین کی کشش سے نکلنے کے لیے درکار رفتار۔ زمین نسبتاً ایک بڑا سیارہ ہے اور اس کی اسکیپ ولاسٹی تقریباً 11 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار ہے۔ اگر ایک خلا باز چھوٹے سیارچوں میں سے کسی ایک کی سطح پر کھڑا ہوتا ہے اور اسی جگہ اچھلنے لگتا ہے تو وہ آربیٹل ولاسٹی (orbital velocity) (اور ممکنہ طور پر اسکیپ ولاسٹی بھی) حاصل کر سکتا ہے۔ یہ عجیب لگتا ہے لیکن تجارتی فوائد کے حصول کو مدنظر رکھا جائے تو کشش ثقل کے ایسے معمولی فرق کافی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔

ایک خلائی جہاز سیارچے پر سرے سے اتر ہی نہیں سکتا کیونکہ سطح سے ٹکراتے ہی وہ دوبارہ فضا میں پلٹ جائے گا۔

اسی طرح جیسے ہی کوئی خلاباز یا روبوٹ ورکر سیارچے پر کھدائی کی کوشش کرے تو کھدائی والی مشین سطح سے ٹکراتے ہی وہ اپنی جگہ سے دور ہٹتے ہوئے کہیں اور پہنچ جائے گا۔ دراصل اس کا خلائی جہاز ممکنہ طور پر ابتدا میں ہی ایسا کر گزرے گا۔ بعض سائنس دانوں نے تجویز پیش کی ہے کہ پورا پتھر ایک رسی سے چاروں اطراف سے باندھا ہو اور خلائی جہاز کو بھی اصلی سیارچے سے بندھا ہونا چاہیے اس کے بعد ہی سنجیدہ قسم کا کام شروع ہو سکتا ہے۔ کچھ دیگر کی رائے ہے کہ اس پر جدید عہد کے نیزے برسانے چاہیے تاکہ پتھر کے ٹکڑے حاصل کیے جا سکیں۔

دیگر پتھریلے سیاروں کی نسبت کرۂ ارض کی سطح میں سب سے زیادہ کشش ثقل پائی جاتی ہے۔ اگر آپ خلا میں بہت بڑے ڈھانچے تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو یہ بے تکی بات ہے کہ انہیں یہاں بنائیں اور پھر مدار میں لے جانے پر وسائل خرچ کریں۔ بہت سے سائنس دانوں کے خیال میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ دھاتوں پر کام کرنے والی مشینیں سیارچوں پر پہنچائی جائیں اور پھر صفر کشش ثقل میں خام مواد تیار کیا جائے۔ اس طرح کے منصوبے کے لیے خلا میں بڑی صنعت کی بنیاد ڈالنا پڑے گی۔

مجھے ایسی صنعت کے امکان میں ایک لمحے کو بھی شبہ نہیں لیکن یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس پر کئی سال لگ جائیں گے۔ دنیا بھر میں مختلف لوگوں نے گذشتہ چند برس میں امریکی خلائی کمپنی ’سپیس ایکس‘ کی نقل کرنے میں صرف کیے۔ ان کی خلائی مشینوں کا ٹکڑوں کی صورت میں بکھرنا تفریحی سرگرمیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہتری کی جانب مائل اور اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ خلا میں کھدائی کرنے والی ایسی حقیقی ٹیکنالوجی کب وجود میں آئے گی جو قابل اعتماد اور موثر ہو۔ کشش ثقل کے بغیر ہم خلا میں معدنیات پر کام کیسے کر سکتے ہیں، ہم کیسے انہیں حاصل کر سکتے ہیں یا اپنی اجزائی خصوصیات کے مطابق الگ ہونے کا ماحول فراہم کر سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں لوگوں نے تجربہ گاہوں میں تجربات کیے ہیں اور بلاشبہ قائل کر دینے والے کمپیوٹر ماڈلز موجود ہیں لیکن جیسا کہ سپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک اکثر کہتے ہیں اصلی ہارڈ ویئر بننے میں وقت لگتا ہے۔

اگر آپ خام معدنیات واپس زمین پر یا کم از کم کسی ایسی جگہ منتقل کرنا چاہتے ہوں جہاں ان سے حقیقی معنوں میں استفادہ کیا جا سکے تو آپ کو معدنیات کا ہی نہیں بلکہ مدار کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ آپ سیارچے کو ہمارے اپنے کرہ ارض کے نزدیک لانے کے لیے اس کا مدار کیسے بدلتے ہیں یہ ایک الگ مصیبت ہے۔ ایسے منصوبے کی نگرانی کون سی نگران تنظیمیں کریں گی بالخصوص اگر یہ بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تو؟ ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں ہو سکی کہ یہ منصوبہ چاند پر خام معدنیات ڈھونڈنے کی نسبت کیسے زیادہ سود مند ثابت ہو گا۔ خلا میں کالونیاں بنانے کے ابتدائی وکیلوں جیسا کہ جیرڈ اونیل نے بہت کھل کر سیارچوں پر کان کنی کی بات کی تاکہ خلا میں کالونیاں بنائی جا سکیں جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلا میں رہنے کے قابل ہو سکے گی۔

بعض سیارچوں پر شاید منجمد پانی موجود ہو۔ باقیوں پر شاید معدنیات۔ اگر ہم ایسے مستقبل کی بات کر رہے ہیں جب خلا میں بڑے پیمانے پر سرگرمیاں معمول ہوں گی تو تب سیارچوں پر معدنیات کی نسبت پانی کے لیے کھدائی شاید کم خرچ لیکن بہتر ثمرات کی حامل ثابت ہو۔ دور دراز خلا میں سفر کے لیے ہزاروں ٹن ایندھن درکار ہو گا اور جہازوں کے لیے زیادہ تر ایندھن پانی کے ذریعے باآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ جب ایک بار خلائی جہاز کو زمین پر دوبارہ ایندھن بھروانے کے لیے نہیں آنا پڑے گا تو چاند اور مریخ پر سفر کرنے کی معاشیات باآسانی بالکل الٹ ہو سکتی ہے۔

اس وقت سیارچوں پر کان کنی والی کمپنیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی ساکھ ہے۔ بس اتنا کہ یہ لوگ کس قدر سنجیدہ ہیں؟ یاد رہے ناسا نے ماضی کے پندرہ برس اس کوشش میں صرف کر دئیے کہ چار افراد کو واپس چاند پر لا سکے۔ مختلف سیاروں کے درمیان کروڑوں ٹن مواد منتقل کرنا اور ایسا ان لوگوں کی زندگیوں میں کرنا جو ابھی ایسے منصوبے ترتیب دے رہے ہیں، کس قدر حقیقت پسندانہ ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیارچوں میں خام معدنیات کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن ہم انہیں ایسے مقام پر کیسے منتقل کریں گے جہاں انہیں معقول طریقے سے استعمال میں لایا جا سکتا ہو اور عملاً اس مقام پر ہم انہیں خام مواد سے کیسے الگ کریں گے؟

حقیقت پسندانہ مکالموں کی بڑی تعداد CubeSat ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ یہ جوتوں کے ڈبوں جتنے خلائی جہاز ہیں جو بہت معقول رقم میں تیار کر کے زمین کے قریب ترین سیارچوں پر اس بات کا پتہ چلانے کے لیے بھیجے جا سکتے ہیں کہ کس طرح کی خام معدنیات وہاں موجود ہیں۔

Asteroid Redirect Mission نے شمسی برقی توانائی کو بطور ایندھن استعمال کیا ہوتا البتہ اس پر خرچ ہونے والی ممکنہ توانائی کے سامنے مجوزہ سیارچہ کم تر نظر آنا تھا۔ بعض محققین نے سیارچے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور برقی مقناطیسی غلیل کی مدد سے وہ ٹکڑے خلا میں انتہائی تیز رفتار سے پھینکنے پر غور و خوض کیا ہے۔ اس طرح خام غیر صاف شدہ پتھر جہاز کے ایندھن کی متبادل قسم بنے گی اور شاید یہ سیارچے کا نصف سے بھی زائد حصہ اسے چاند یا زمین کے مدار میں لانے کے لیے خرچ کر دے گا، اس طرح آہستہ آہستہ لیکن یقیناً منتقل کیا جا سکتا ہے۔ دیگر سائنسدان خام معدنیات کو جہاں ملیں وہیں خالص بنانا اور جب یہ پوری طرح تیار ہوں تب ان صاف شدہ معدنیات کو زیادہ مفید مقام پر منتقل کرنے کے حق میں ہیں۔

لیکن ان میں سے کسی کے بھی حقیقت بننے میں ہمیں ابھی تک انہی بنیادی رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ہم نے خلائی پروازوں کی راہ میں گذشتہ 60 برسوں کے دوران محسوس کیں یعنی خلائی مشن بھیجنے کے اخراجات میں اس قدر کمی لانا کہ حقیقت پسند پرعزم سرمایہ کار جنہیں خلائی سفر سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں، وہ خلا میں کان کنی جیسی خطرناک مہم جوئی میں اپنی رقم خرچ کرنے کے لیے خطرہ مول لینے کو تیار ہو جائیں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس