جب صدر پاکستان اور وزیر اعظم ایک ساتھ رخصت ہوئے

پاکستان کی سیاست میں 18 جولائی 1993 وہ تاریخی دن تھا جب پہلے وزیر اعظم نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دی پھر صدر نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

چھ نومبر 1990 کو اسلام آباد میں اس وقت  کے وزیر اعظم نواز شریف صدر غلام اسحاق سے حلف اٹھا رہے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان سیاسی تگ و دو سے ملک میں کئی ماہ غیر مستحکم صورت حال رہی (اے ایف پی)

آٹھ جنوری 1993 کو میں جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ کا دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال ہوا تو اس وقت سنیارٹی لسٹ میں بالترتیب لیفٹیننٹ جنرل رحم دل بھٹی، لیفٹیننٹ جنرل محمد اشرف، لیفٹیننٹ جنرل فرخ خان اور لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش شامل تھے، تاہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چاروں جرنیلوں کو سپرسیڈ کرتے ہوئے پانچویں جنرل عبدالوحید کاکڑ کو پاکستان کی بری فوج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ کی بطور آرمی چیف تقرری کے معاملے پر صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ اختلافات کا آغاز ہوا۔ کم و بیش اسی زمانے میں وزیر اعظم نواز شریف نے آٹھویں آئینی ترمیم کے خاتمے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے خیرسگالی کے طور پر قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کو قومی اسمبلی کی امور خارجہ کی کمیٹی کا چیئرپرسن مقرر کر دیا۔

18 مارچ 1993 کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ محمد خان جونیجو امریکہ میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کروا لیا۔ ان کے اس اقدام نے مسلم لیگ کے بہت سے رہنمائوں اور نظریاتی کارکنان کو ان سے دور کر دیا۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ کی تقرری پر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف بڑھتا ہی چلا گیا، اپریل 1993 کے آغاز سے حامد ناصر چٹھہ کی سرکردگی میں مرکزی وزرا نے کابینہ سے مستعفی ہونے کے سلسلہ کا آغاز کیا تو پورے ملک میں یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ صدر کسی بھی لمحے اسمبلیاں تحلیل کرنے والے ہیں۔

17 اپریل 1993 کو وزیر اعظم نواز شریف نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بڑے جذباتی انداز سے قوم کو اپنی خدمات گنوائیں اور کہا کہ ایوان صدر سازشوں کی آماج گاہ بن چکا ہے اور یہ کہ وہ کسی کمزوری، کوتاہی یا پسپائی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ وہ نہ استعفیٰ دیں گے، نہ اسمبلی توڑیں گے اور نہ ڈکٹیشن لیں گے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی یہ تقریر صدر غلام اسحاق خان، جو اسمبلی توڑنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے، کو ایک مضبوط جواز فراہم کر گئی اور اگلے ہی دن 18 اپریل 1993 کو انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف، ان کی کابینہ اور اسمبلی کو برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسی شام ایوان صدر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں صدر غلام اسحاق خان نے سینئر پارلیمنٹرین میر بلخ شیر مزاری سے نگران وزیر اعظم کے منصب کا حلف لیا۔ ان کے زیر قیادت نگران کابینہ حامد ناصر چٹھہ اور سردار فاروق احمد لغاری پر مشتمل تھی۔ بعد میں اس کابینہ میں توسیع بھی کی گئی۔

اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی کیپٹن (ر) گوہر ایوب خان نے صدر مملکت کے اقدام کے خلاف اسمبلی کے کسٹوڈین کی حیثیت سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بینچ نے تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد 26 مئی 1993 کو قومی اسمبلی اور نواز شریف سرکار کی غیر مشروط بحالی کا حکم جاری کر دیا۔ عدالتی فیصلے کے تناظر میں نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری نے 26 مئی 1993 کو ہی 39 دن حکومت کرنے کے بعد اقتدار نواز شریف کو منتقل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں صدر غلام اسحاق خان کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا، وہیں ملک کی سیاسی صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔

حکومت کی بحالی کے اگلے روز 27 مئی 1993 کو نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اب خدا کے فضل سے صحیح معنوں میں بحال ہوئی ہے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسی تقریر میں آگے چل کر انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دن بدلنے والے ہیں اور پاکستان کو اب اس ڈگر (جمہوریت) سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا۔

عدالت عظمیٰ سے حکومت کی بحالی اور قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ اپنے تمام مسائل پر قابو پانے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو ایک نیا حوصلہ اور نئی طاقت ملی ہے اور اب ان کے راستے سے تمام رکاوٹیں ہٹ چکی ہیں یا آنے والے دنوں میں ہٹ جائیں گی۔ لیکن ان ہی دنوں ملک کے ممتاز صحافیوں کے ایک وفد نے صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کی اور ان سے سوال کیا کہ کیا آنے والے دنوں میں ملک ٹھہراؤ اور استحکام کی کوئی صورت پیدا ہو گی؟

صدر مملکت نے یہ سوال سنا اور وفد کے رکن مجیب الرحمٰن شامی کو مخاطب کرتے ہوئے علامہ اقبال کا ایک فارسی شعر پڑھا

گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں
ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است

اگلے دن کے اخبارات میں اس ملاقات کی تفصیلات شہ سرخیوں میں شائع ہوئیں جن میں اس شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس بوڑھے کے باغ میں انگور کی ایسی ہزاروں بیلیں موجود ہیں جن سے شراب کشید ابھی کی ہی نہیں گئی۔

اس دلچسپ شاعرانہ جواب کا پیغام واضح تھا کہ آنے والے دنوں میں بہت سی آزمائشیں وزیر اعظم کی منتظر ہیں۔ یہی مسائل اور آزمائشیں تھیں جن سے پریشان ہو کر وزیر اعظم کو مبینہ طور پر ’اشک بار‘ کیفیت میں دیکھا گیا۔

وفاقی حکومت کی تحیلیل اور بحالی کے 39 دنوں کے دوران پنجاب میں دور رس سیاسی اہمیت رکھنے والے دو اہم واقعات رونما ہو چکے تھے۔

پہلا واقعہ وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تھا۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔ میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت فوری طور پر میسر آ گئی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔

دوسری تبدیلی گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کی تبدیلی کی تھی۔ ان کی فراغت کے بعد جہلم کے معروف سیاست دان چوہدری الطاف حسین کو گورنر بنا دیا گیا۔ گورنر چوہدری الطاف نے اپنی مہارت اور سیاسی حربوں سے وزیر اعظم کو کس طرح زچ کیا، یہ داستان طویل ہے، شاید اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پیش بندی کے طور پر منظور احمد وٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی۔

چوہدری برادران، خاص طور پر چوہدری پرویز الٰہی نے اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کر کے اراکین اسمبلی کو اسلام آباد منتقل کر دیا تاکہ انہیں وفاداریاں تبدیل کرنے سے دور رکھا جا سکے۔ اس دوران وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی تاکہ پنجاب میں تبدیلی لا کر یہاں کا ماحول وفاقی حکومت کے لیے سازگار بنایا جا سکے۔

تحریک عدم اعتماد کے اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچنے سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے گورنر چوہدری الطاف حسین کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے دی۔ گورنر پنجاب کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے پر دستخط کرنے کے معاملے کو مسلم لیگ نے عدالت میں چیلنج کیا لیکن اس مرحلے پر مسلم لیگ کی مخالف سیاسی قوتوں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی نے مقدمے کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کا گھیراؤ کر کے عدالت پر دباؤ کی صورت حال پیدا کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مال روڈ پر تمام دن لوٹوں کی بارش اور لوٹا برداروں کے جلوس جاری رہتے اور اندر جج حضرات پر عبدالحفیظ پیرازدہ کی یلغار کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سیاسی بے وفائی کے لیے ملک میں پہلی بار ’لوٹے‘ کی اصطلاح عام ہوئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ایسے ماحول میں جس میں ملک کا سیاسی ماحول بھی تناؤ کا شکار تھا اور گھیراؤ جیسے ہتھکنڈوں کی وجہ سے عدالت کوئی ایسا فیصلہ نہ دے سکی جس کی مدد سے میاں نواز شریف کے لیے پنجاب میں اطمینان کی کوئی صورت پیدا ہوتی۔ وفاقی حکومت پنجاب میں یہ مقدمہ جیت نہ پائی تو وہاں کی حکومت نے وفاقی حکومت اور اس کے ذمہ داروں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ رائے ونڈ میں شریف خاندان کے گھر کی اور لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ یہاں تک کہ ان دونوں رہنماؤں کے ملاقاتیوں کو بھی پریشان کیا جانے لگا۔ اس صورت حال سے پریشان ہو کر نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے رینجرز کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے۔

صدر مملکت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی سرپرستی میں پنجاب حکومت کے ان اقدامات نے وفاقی حکومت کا رابطہ اس طرح بند کر دیا تو وفاق نے کوشش کی کہ صوبے کا اختیار براہ راست وفاق کے سپرد کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آئین کی دفعہ 234 (اے) کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا تاکہ صوبہ پنجاب کا انتظام وفاق سنبھال سکے۔ وفاق نے اس مقصد کے لیے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو صوبے کا ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کر دیا، اس کے ساتھ ہی چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کا تبادلہ کر دیا گیا۔

صدر غلام اسحاق خان نے اس فیصلے کی تائید سے انکار کر دیا، اس طرح مسائل پیدا کرنے والے صوبے پر کنٹرول کی دوسری کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ اس کوشش کی ناکامی میں صدر مملکت کی حمایت سے گورنر کے اقدامات کے علاوہ فوج کا کردار بھی غیر معمولی رہا۔

آئین کی دفعہ 234 (اے) کے نفاذ کی اطلاع ملتے ہی گورنر چوہدری الطاف حسین نے کور کمانڈر لاہور سے رابطہ کر کے انہیں آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت ایک ایسا اقدام کرنے جا رہی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس صورت حال میں فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ نے رینجرز سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کر دی کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت یا وزارت دفاع کے ان تمام احکامات کو ماننے سے انکار کر دیں جن کی آئینی حیثیت مشکوک ہو۔

دوسری طرف طاقت ور حلقوں کی طرف سے میاں نواز شریف کو بھی خبردار کر دیا گیا کہ وہ اس قسم کے کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔ وفاقی حکومت کو زچ کرنے کے لیے یہ حالات کافی تھے لیکن اس کے باوجود دیگر صوبوں سے دباؤ ڈالنے کا انتظام کر دیا گیا۔ سندھ نے پنجاب سے آنے والی ٹریفک روکنے کا عندیہ دیا جبکہ سرحد (خیبرپختونخوا) نے وفاقی دارالحکومت کی بجلی اور بلوچستان نے گیس بند کر دینے جیسی باتیں کہنی شروع کر دیں۔

جولائی 1993 کے اوائل میں پاکستان پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس نے اعلان کیا کہ اگر وزیر اعظم نے نئے انتخابات کروانے کا اعلان نہیں کیا تو وہ 16 جولائی 1993 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گیں۔ اس لانگ مارچ کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب حکومت کی مالی اور انتظامی حمایت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ حالات کچھ ایسی شکل اختیار کر گئے کہ ملک میں مارشل لا کی باتیں ہونے لگیں۔ ان افواہوں کو تقویت کور کمانڈرز کانفرنس کے اس غیر معمولی اجلاس سے ملی جو محرم کی دو چھٹیوں یعنی نو اور دس محرم کے موقع پر منعقد کیا گیا۔

پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی کور کمنڈرز کانفرنس میں ملک کے حالات پر تفصیل سے غور کیا گیا اور اس میں کئی امکانات پر غور کیا گیا تاہم حتمی فیصلہ فوج کے سربراہ جنرل عبد الوحید کاکڑ کی رائے کے مطابق ہوا کہ بحران کا حل دستور کے اندر ہی سے نکالا جانا چاہیے۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے فوراً بعد رات 11بجے فوج کے سربراہ نے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کیں اور تجویز پیش کی کہ مسئلے کے حل کے لیے نئے عام انتخابات کرائے جائیں۔ لانگ مارچ کا وقت قریب آیا تو آرمی چیف نے طیارہ بھیج کر پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی مدعو کر کے ان سے ملاقات کی۔ 

اس موقع پر جنرل کاکڑ نے بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ یہ کام فوج کے کہنے یا اس کی مداخلت پر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس ’مشہور زمانہ‘ ملاقات کا انتظام کیا گیا جس میں وزیر اعظم اور صدر مملکت دونوں مستعفی ہونے پر آمادہ ہو گئے۔

پاکستان کی سیاست میں 18 جولائی 1993 وہ تاریخی دن تھا جب ملک کے صدر اور وزیراعظم ایک ساتھ اپنے عہدوں سے رخصت ہوئے۔ پہلے وزیراعظم نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دی پھر صدر نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے اتفاق رائے سے عالمی بینک کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا جبکہ سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ