جب جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جائے

دو سرکاری ملازمین نے مجھ سے لفٹ مانگی ان سے جاننا چاہا کہ موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں میں کیا فرق ہے؟ انھوں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بولے کہ ہمیں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

جو جماعت یعنی کہ تحریک انصاف 2010 میں لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھی آج وہی اقتدار میں آنے کے بعد اسے قابو میں لانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ فائل فوٹو ۔اے ایف پی

ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے مہنگائی آ نہیں رہی آچکی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو کیا معلوم کہ اس گھر کا کیا حال ہے جہاں موم بتی بھی نہیں جلتی۔ کروڑوں اربوں کی روپے کی جائیداد کے مالک وزراء کو کیا خبر لاکھوں لوگ پانی کے ساتھ روٹی کھانے کو ترس رہے ہیں۔ قمیتی اور لمبی کاروں کے مشیروں کو کیا علم کہ بے روزگاروں اور فاقوں کے ماروں کے دین ایمان اور عقیدے پر روزانہ کیا قیامتیں گزرتی ہیں؟

عوام کو صبر کا بھاشن دینے والے وزراء کو کوئی سمجھائے کہ عوام کی نظریں تمھاری کرسی پر نہیں وہ ماتم اپنی کسمپرسی اور بے بسی پر کر رہے ہیں۔ عوام پیزا نہیں مانگتے اور نہ ہی فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے، انھیں تازہ پھلوں کا جوس اور کافی پینے کا کوئی شوق نہیں وہ یہ مانگتے ہیں جس سے ان کا پیٹ بھر جائے اور ان کی سفید پوشی کا بھرم باقی رہے۔ وہ لندن کے مہنگے ہسپتالوں میں علاج کروانے کی تمنا نہیں رکھتے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بوڑھی بیمار ماؤں کو طبی سہولیات میسر ہوں۔

تقریروں میں تو آپ کہتے ہیں کہ مہنگائی بین الاقومی مسئلہ ہے، بے روز گاری ہمسایہ ممالک میں بھی ہے، افراط زر کا تعلق (ن) لیگ اور پی پی کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ہے۔ لیکن کبھی آپ نے غور فرمایا جہاں مہنگائی ہے وہاں حکومت سبسڈی بھی دیتی ہے، جہاں بے روزگاری ہے وہاں الاونس بھی ملتے ہیں، حکومت کے کارندے زرا بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کا بورڈ ہاتھ بندھے آپ کے سرھانے کھڑا ہوتا ہے مگر عامی بیمار ہو تو بیس روپے ہسپتال کی پرچی دل میں برچھی بن کر لگتی ہے۔ آپ اور آپ کے کاسہ لیسوں کی دیکھ بھال کے لیے مایہ ناز طبیب ہاتھ بندھے کھڑے رہتے ہیں اور عام آدمی کو ایک سو چار کا بخار ہو جائے تو سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے۔

انتخابات سے قبل عمران خان نے اپنی دلدوز تقریروں سے ناظرین و سامعین کو کئی بار رلایا، ماضی کے حکمرانوں کے لوٹ کھسوٹ کے قصے سنا سنا کر عوام کا دل پگھلایا، عوام کو سہنرے خواب دکھائے، عوام نے سمجھا کہ حقیقی مسحیا تو عمران خان ہے، کچھ انھوں نے ووٹ ڈالے اور کچھ مہربانی سے آپ اقتدار میں تو آ گئے مگر اقتدار کی ڈور کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے یہ جاننے سے قاصر ہیں۔

ایماندار حکمران اللہ کا عطیہ ہوتے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ حکمران کو ’بےدید‘ ہونا چاہیے۔ بےدید سے مراد آنکھوں کی چمک سے محروم ہونا نہیں طبعیت کی لچک سے عاری ہونا ہے ایسا بےلچک حکمران جسے کسی نوٹوں کی کڑک، ’بوٹوں کی دھمک‘ اسے اپنے فیصلے سے ہٹا نہ سکے۔

یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے حکمران جو فیصلہ کرتے ہیں اگلے ہی دن وہ تماشا بن جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اختیار حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں کسی اور کے پاس ہے۔ عوامی لیڈر نبض شناس ہوتا ہے وہ عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرتا ہے جس سے اس کی مقبولیت باقی رہتی ہے۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت وقت جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ عوام دشمن کیوں ہے؟

شیخ ضیاءالدین سہروردی نے اپنی کتاب ’آداب المریدین‘ میں حکمرانوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکمران تین قسم کے ہوتے ہیں ایک مانند غذا جن کے بغیر گزارہ نہیں، دوسرے مثل دوا جو بوقت ضرورت کارآمد ہوتے ہیں اور تیسرے بیماری کی طرح جن سے بچنا لازم ہوتا ہے۔‘

بہرحال میں چونکہ سڑک چھاپ صحافی ٹھہرا دن بھر عامی سے ملتا ہوں ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اکثریت عامی کی یہ کہتی ہے کہ موجودہ حکمران آخرالذکر کیٹگری میں آتے ہیں نو ماہ کے قلیل عرصے میں حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف اتنی تیزی سے گرنا اس بات کی غمازی ہے۔ گذشتہ روز پارلیمنٹ میں قائمہ کمیٹی کا اجلاس کور کرنے کے بعد واپس دفتر آ رہا تھا کہ دو سرکاری ملازمین نے مجھ سے لفٹ مانگی ان سے جاننا چاہا کہ موجودہ حکمران اور ماضی کے حکمرانوں میں کیا فرق ہے؟ انھوں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بولے کہ ہمیں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ