غلطی تو ہندو برادری کی ہے، کیوں معاف کرتے ہیں؟

کرک مندر پر حملہ کرنے والوں نے مارچ میں منت سماجت کر کے معافی تو مانگ لی مگر انہی کی سوچ رکھنے والوں نے پانچ ماہ کے اندر ہی ایک اور مندر پر ہلہ بول دیا۔

دسمبر 2020 میں کرک میں مشتعل ہجوم کے حملے کا نشانہ بننے والا مندر (اے ایف پی فائل)

غلطی ہندو برادری کی ہے۔ آخر کیا ضرورت تھی کہ گذشتہ دسمبر کو خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے ٹیری میں ہندوؤں کے مذہبی پیشوا کی سمادھی پر مقامی مذہبی رہنما کے کہنے پر حملہ آور ہونے والوں کو معاف کرنے کی؟

غلطی حکومت کی بھی ہے کہ کیوں جرگہ بنوایا اور افہام و تفہیم کی۔ اس واقعے میں 121 افراد کو گرفتار کیا گیا بشمول مذہبی جماعت کے رہنما جس نے ہجوم کو مندر پر حملے کے لیے اُکسایا۔  اُن کے بقول 13 مارچ کو فریقین کے درمیان جرگے کے ذریعے تصفیہ ہوا جس کے بعد ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کی منت سماجت پر ہندو برادری نے انہیں معاف کر دیا۔

ہندو برادری کو لولی پاپ دیا گیا کہ ہندوؤں کو ملک بھر میں آئینِ پاکستان کے تحت حاصل تمام حقوق دیے جائیں گے۔

منت سماجت صرف اس لیے کی گئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے از خود نوٹس لیا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ تباہ ہونے والی املاک کی بحالی کی رقم ملزم مولوی شریف اور ان کے گروہ سے وصول کی جائے۔

معافی بھی ہو گئی اور حقوق تو معلوم نہیں کہ ملے کہ نہیں۔ لیکن اتنا معلوم ہے کہ مارچ میں منت سماجت کر کے معافی مانگنے والوں کی سوچ رکھنے والوں نے پانچ ماہ کے اندر ہی ایک اور مندر پر ہلہ بول دیا۔

صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے بھونگ میں واقع مندر پر دھاوا بول دیا۔ حملہ آوروں نے مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی اور وہاں نصب مورتیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ وجہ ایک آٹھ یا نو سالہ بچہ جس کا مبینہ طور پر دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ 

چیف جسٹس گلزار احمد نے ایک بار پھر از خود نوٹس لیا۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ نامعلوم ملزمان نے مندر پر حملہ کرنے سے پہلے اس سے ملحقہ امام بارگاہ کے علم کو جلایا اور اس کے بعد مندر پر حملہ کیا۔ مسجد، امام بارگاہ اور مندر ایک ہی جگہ پر واقع ہیں اور ہندو جب بھی وہاں سے گزرتے تھے تو وہ احتراماً علم کو ہاتھ لگاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے سماعت کے دوران مندر پر حملے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مندر کی بحالی کے اخراجات بھی انہی ملزمان سے لیے جائیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اس عمر کے بچے کو تو ضمانت ایس ایچ او بھی دے سکتا تھا۔ جناب عالی قانوناً تو ایس ایچ او بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن جب معاملہ توہین مذہب کا ہو تو ایس ایچ او کیا بڑوں بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ 

عدالت نے کہا کہ ایسے واقعات کے باعث پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ جناب عالی بدنامی تو گذشتہ ڈیڑھ سال میں کئی بار ہو چکی ہے۔ 

بدنامی تو اس وقت بھی ہوئی تھی جب کراچی کے علاقے لیاری میں تقسیم ہند سے قبل کا ہنومان مندر ایک بلڈر نے مسمار کر دیا تھا۔

پھر گذشتہ سال اکتوبر میں صوبہ سندھ کے علاقے ننگرہار میں مندر کے اندر پڑی مورتیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہندو برادری نے اس مندر میں نوراتری کی پوجا کی۔ نامعلوم حملہ آوروں نے ہنگلاج ماتا کا سر توڑ دیا اور شیر کو بھی نقصان پہنچایا۔

گذشتہ سال جنوری میں ہجوم نے تھرپارکر کے علاقے چھاچھرو میں واقع ماتا رانی بھٹیانی دیوی کے مندر میں توڑ پھوڑ کی اور ہندؤں کی مذہبی کتابوں کو آگ لگا دی۔ حملہ آوروں نے مندر میں پڑی مورتی کو نقصان پہنچایا اور چہرے پر کالا رنگ پھیر دیا۔

اور گذشتہ سال ہی لوگوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے مندر کو اس وقت نقصان پہنچایا جب مندر کے لیے الاٹ کی گئی جگہ کے ارد گرد دیوار کھڑی کرنے کا کام شروع کیا گیا۔

پھر رواں سال ہی راولپنڈی کے علاقے پرانا قلعہ میں واقع ایک سو سالہ قدیم مندر پر ایک درجن سے زائد افراد نے حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس مندر میں مرمت کا کام جاری تھا جس کے باعث اس میں نہ تو ہندو برادری عبادت کرتی تھی اور نہ ہی اس میں مورتیاں پڑی تھیں۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں اس وقت صرف 20 مندر فعال ہیں جن میں سے چار پنجاب میں، 11 سندھ میں، تین بلوچستان میں اور دو خیبر پختونخوا میں۔

آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کی جانب سے ایک سروے جاری کیا گیا تھا جس میں چونکا دینے والے اعداد و شمار شائع کیے گئے۔ اس سروے میں کہا گیا کہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں 428 ہندو مندر موجود تھے۔ سروے میں کہا گیا کہ ان میں سے 408 مندروں کو ریسٹورنٹس، کھیلوں کی دکانوں، سرکاری دفاتر اور سکولوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

حکومت کے لیے صرف واضح طور پر ایسے واقعات کی مذمت کرنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ہر ایسے واقعے کی پوری طرح اور تیزی سے چھان بین ہونی چاہیے۔ اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی مذہبی رہنما یا علاقے کا اثرو رسوخ رکھنے والا شخص لوگوں کو اکسانے سے باز رہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان