خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے مندر کو جلانے اور سمادھی کو نقصان پہنچانے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ تباہ ہونے والی املاک کی بحالی کی رقم ملزم مولوی شریف اور ان کے گروہ سے وصول کی جائے۔
کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے منگل کو کی جس میں آئی جی اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے آئی جی سے سوال کیا کہ جب ہجوم نے مندر پر حملہ کیا تو ان کی فورس کہاں تھی۔ انہوں نے کہا: ’کرک میں بڑا افسوسناک واقعہ ہوا۔ حملہ آور ہر چیز کو تباہ کرتے رہے، سمادھی کو آگ لگا دی۔ ساتھ ہی پولیس چوکی ہے۔ یہ واقعہ کیسے ہوگیا؟ آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں جب اتنے لوگ جمع ہوئے؟‘
چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ ’پولیس نے ہجوم کو اندر جانے کی اجازت کیسے دی پولیس کا کام قانون نافذ کرنا ہے حکومت کی رٹ برقرار رہنی چاہیے۔‘
آئی جی خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت ڈیوٹی پر معمور 92 اہکاروں کومعطل کیا گیا ہے جبکہ توڑ پھوڑ میں ملوث 109 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
آئی جی نے مزید بتایا کہ جمعیت علما پاکستان کا اس جگہ پر اجتماع تھا۔ مولانا فیض الرحمان نے اس اجتماع کو سپانسر کیا تھا اور وہاں موجود چھ علما میں سے صرف مولوی شریف نے شرکا کو احتجاج کرنے پر اکسایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’پولیس اہلکاروں کو صرف معطل کرنا کافی نہیں ہے۔ اس واقعہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے۔ مولوی شریف بھی کچھ دن میں ضمانت لے کر باہر آجائیں گے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر تمام تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔
چئیرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل نے عدالت کو بتایا کہ سمادھی کے ادرگرد کا علاقہ متروکہ وقف املاک کو اپنی تحویل میں لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا تھا آگ لگانے کے اصل ملزم مولوی شریف ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ مولوی شریف کی جلد ضمانت نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا: ’خیبر پختونخوا متروکہ وقف املاک نے مندر کی جگہ کا تحفظ نہیں کیا۔ کرتاپور کی طرح یہ جگہ ہندوں کے لیے مقدس ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر کاظم نے عدالت کو بتایا کہ سمادھی پر 100 پولیس اہلکاروں کی نئی نفری تعینات کردی ہے اور اب اس کو دوبارہ بحال کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا: ’مندر اور سمادھی کو بحال کرنے کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا ان سے یہ رقم وصول کی جائے۔ ذمہ داروں کی جیب سے پیسے نکالیں گے تو انہیں احساس ہوگا۔‘
چیف سیکرٹری نے کہا کہ فوری طور پر مندر اور سمادھی کی بحالی حکومتی اخراجات سے کی جائے گی لیکن بعد میں ذمہ داران سے بحالی کی رقم وصول کی جائے گی۔
ہندو رہنما اور رکن اسمبلی رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ اس مقام پر کمیونٹی کے دو بڑے میلے لگتے ہیں اور ایک ماہ میں سمادھی پر تقریباً چار سو لوگ آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’مولوی شریف نے 1997 میں بھی سمادھی کو توڑا تھا لیکن تب بھی عدالتی حکم کے باوجودی متروکہ املاک نےسمادھی کو بحال نہیں کیا تھا۔ پھر ہندو کونسل نے چار کروڑ دے کر سمادھی کو بحال کیا تھا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے: ’متروکہ املاک بورڈ کے افسران صرف پیسہ بنا رہے ہیں۔ جس سے دل کرتا ہے زمین واپس لیتے ہیں اور جسے دل کرتا ہے دے دیتے ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’متروکہ املاک کے پاس اپنی بڑی عمارات بنانے کا پیسہ تو ہے لیکن اپنے اصل کام کے لیے پیسہ نہیں ہے۔‘
عدالت نے کرک میں جلائی گئے مندر اور سمادھی کی دو ہفتے میں بحالی شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سے تمام مندروں کی تفصیلات طلب کر لیں اور کہا کہ بتایا جائے کُل کتنے مندر ہیں اور فعال کتنے ہیں۔
اس کے علاوہ عدالت نے متروکہ املاک کو قبضے اور تجاوزات کی تفصیلات بھی دو ہفتے میں پیش کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں موجود مقدمات کی تفصیلات بھی پیش کریں۔ عدالت نے مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 30 دسمبر کو کرک میں جمیعت علما پاکستان کے مظاہرین نے ایک مندر پر حملہ اور آگ لگنے کے واقعے پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تھا اور اقلیتوں کے حقوق کے لیےموجود کمیشن سے رپورٹ طلب کی تھی جو گذشتہ روز عدالت میں جمع کروا دی تھی۔
اس رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے 2015 کے حکم نامہ کے تحت متروکہ وقف املاک کو حکم دیا جائے کہ ہندو کونسل کو 3.8 کروڑ روپے جاری کیے جائیں اور مذکورہ رقم مندر کی از سر نو تعمیر کے لیے استعمال کی جائے۔
رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی کہ کرک مندر سمیت کٹاس راج مندر، ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان اور پڑھلاد بھگت مندر ملتان کو ہندوؤں کے مذہبی مقامات قرار دیا جائے اور چاروں مذہبی مقامات کو کرتار پور گردوارے جیسی سکیورٹی فراہم کی جائے۔