خیبرپختونخوا: کرک میں دو بار مسمار ہونے والے مندر کا تنازع کیا ہے؟

117 سال پرانے اس مندر پر گذشتہ برس دسمبر میں مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے اسے مسمار کردیا تھا۔

 ضلع کرک کے علاقے بانڈہ داؤد شاہ میں واقع مندر کو گذشتہ برس دسمبر میں مشتعل افراد نے حملہ کرکے مسمار کردیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے بانڈہ داؤد شاہ میں واقع 117 سال پرانے مندر پر گذشتہ 25 سال سے جاری تنازع سپریم کورٹ کے حالیہ واضح احکامات اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہو سکا۔ یہ وہی مندر ہے جس پر گذشتہ برس دسمبر میں مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے اسے مسمار کردیا تھا۔

ہندو برادری نے اس ضمن میں کرک کی ضلعی انتظامیہ اور خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ ان سے مشاورت کیے بغیر مندر مسمار کرنے والوں کی ایف آئی آر بھی خارج کردی گئی ہیں۔

بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں ’کرشنا دوارہ‘ کے نام سے تعمیر کردہ مندر 1904 میں اس وقت بنایا گیا تھا جب اتر پردیش سے ایک ہندو مذہبی رہنما ’شری پرام ہنس دیال مہاراج‘ ترک وطن کرکے اس علاقے میں آئے۔

1919 میں جب وہ چل بسے تو انہیں اسی مندر میں دفن کیا گیا اور ان کی سمادھی (قبر) بنا دی گئی۔

تقسیم ہند کے بعد جب ہندو کمیونٹی یہاں سے کوچ کر گئی تو محکمہ اوقاف نے مندر اور سمادھی کی ملکیت ایک مقامی شخص مولوی افتخار کے نام کردی، جنہوں نے سمادھی کو تالا لگا کر عمارت کے دوسرے حصے میں رہائش اختیار کی۔

1980 میں سندھ سے تعلق رکھنے والےکروڑی مل نامی ایک ہندو پیشوا نے مندر کو واپس لینے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی اور طویل جدوجہد کے بعد 25 سال قبل مولوی افتخار دس مرلے کی عمارت کا قبضہ دس لاکھ روپے کے عوض دینے پر رضامند ہوئے۔

بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کرشنا دوارہ‘ پر مسائل کا آغاز دراصل یہیں سے ہوا، جس کے نتیجے میں کرک مندر کو پہلی مرتبہ 1997 میں جبکہ دوسری مرتبہ 2020 میں مکمل طور پر مسمار کیا گیا اور ہندوؤں کا داخلہ اس علاقے میں بند کروا دیا گیا۔

پاکستان ہندو کونسل خیبر پختونخوا شاخ کے کوآرڈینیٹر، مندر کے موجودہ نائب منتظم اور اس مقدمے کے وکیل روہیت کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دسمبر 2020 میں مندر مسمار کرنے میں شامل افراد اور ان کے سربراہ مولوی شریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے بعد ایک جرگے کے ذریعے نیا راضی نامہ کیا گیا، جس پر وزیر اعلیٰ محمود خان سمیت، ضلعی انتظامیہ، علاقائی عمائدین و علما، اقلیتی ارکان سمیت صوبائی و قومی اسمبلی اراکین نے دستخط کیے۔

معاہدے کے متن کے مطابق علما اور عمائدین نے جرگے کا فیصلہ کرتے ہوئے ناخوشگوار واقعات کی معافی مانگی اور یہ یقین دلایا کہ کہ وہ آئندہ ہندو کمیونٹی کو شریعت کے مطابق بنائے گئے آئین پاکستان کے تحت حاصل جملہ حقوق دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنے دیں  گے۔

 روہیت کمار نے بتایا کہ اس اقرار نامے کے بعد جواب میں ہندو برادری نے بھی رضامندی اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی سمیت تمام معاملات میں تعاون کریں گے۔

’تقریباً ساڑھے تین سو افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تھی جب کہ ان میں سے 121 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر ناقابل ضمانت دفعات لگائے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ان کی رہائی ممکن بنائی، تاہم جیسے ہی مندر پر کام شروع ہوا، اس میں دوبارہ رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ کبھی ایس ایچ او تو کبھی ان کے سپاہی مزدوروں کو تنگ کر رہے ہیں۔‘

روہیت کمار نے کہا کہ ’حکومت نے یہ ناانصافی کی کہ ہم سے مشاورت کیے بغیر ایف آئی آر خارج کردی، حالانکہ ضمانت کرنے سے مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا۔ وہ تب ہی خارج ہوتا ہے جب معاہدے پر من وعن عمل ہو، جس کے بعد دونوں فریقین کی باہمی رضامندگی کے بعد عدالتی کارروائی کے ذریعے مقدمہ ختم کیا جاتا ہے۔‘

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مشیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چونکہ مقدمہ حکومت کی مدعیت میں درج ہوا تھا، لہذا اسے خارج کرنے کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہے۔‘

’دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو معاف کرکے راضی نامہ کیاتھا لہذا اس کے بعد ہی ایف آئی آر کو خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

دوسری جانب مندر کا مقدمہ لڑنے والے وکیل روہیت کمار نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ فریقین کے مابین راضی نامہ ہوا تھا لیکن اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ دونوں فریقین معاہدے کی پاسداری کریں گے۔

’معاہدے کی رو سے اگر ایک فریق اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتا تو دوسرا فریق بھی عملدرآمد کرنے کا پابند نہیں رہتا۔ ہم مقدمات تب ہی خارج کرتے جب کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد ہوتا۔‘

ہندو برادری کے مطابق: ’مندر کے کام میں سب سے زیادہ خلل متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور نچلے رینک کے سپاہی ڈال رہے ہیں۔‘ جس پر ایس ایچ او ظہور خان نےاپنے اوپر لگائے گئے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود روزانہ مندر کا جائزہ لینے جاتے ہیں جہاں بدستور کام جاری ہے۔

دوسری جانب، جب اس بارے میں کرک کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) ہارون رشید سے استفسار کیا گیا انہوں نے کہا کہ پولیس کاکام سکیورٹی فراہم کرنا ہے اور یہ کام وہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’دس جولائی کو متعلقہ مندر میں سالانہ عرس منایا گیا جس میں تقریباً ڈیڑھ سو ہندو شرکت کرنے آئے تھے۔ پولیس نے صبح چھ سے شام گئے تک 45 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں ڈیوٹی انجام دی۔ ہم اپنی طرف سے پورا تعاون کررہے ہیں اور کام میں رکاوٹ ڈالنے والی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘

چونکہ ہندو برادری کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کو بھی قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے لہذا اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے کرک کے موجودہ ڈپٹی کمشنر تنویرالرحمان سے بھی کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس موضوع پر کوئی بات کرنے سے اجتناب کیا۔

تاہم، تھانہ ٹیری کے ایک آفیشل نے بتایا کہ ’دراصل ضلعی انتظامیہ اور مندر انتظامیہ کے درمیان تنازعہ واش روم کی تعمیر پر چل رہا ہے، جس کے تحت ضلعی انتظامیہ انہیں اپنی پرانی جگہ پر واش روم تعمیر کرنے کا کہہ رہی ہے جب کہ مندر انتظامیہ اس سے متفق نہیں۔‘

جواب میں ہندو اقلیت کے وکیل نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ ضلعی انتظامیہ انہیں اپنی مرضی کی جگہ پر واش روم بنانے کی اجازت نہیں دے رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مندر صرف دس مرلے کے رقبے پر محیط تھا، بعدازاں جب سکیورٹی کی خاطر اور مرد وخواتین زائرین کی ضروریات کے تحت مندر سے ملحقہ مکان خرید لیاگیا تواس کا کل رقبہ تقریباً ایک کنال بنا۔

’پرانی عمارت میں صرف دو واش روم سمادھی کے عین سامنے بنے تھے۔ اب جگہ بھی ہے اور دو سے زائد واش رومز کی ضرورت بھی ہے، تو پھر غیر ضروری طور پر کیوں تنگ کیا جارہا ہے جب کہ معاہدہ بھی ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات بھی ہیں۔‘

صوبہ سندھ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھیل داس کوہستانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت کی ناکامی تھی کہ مندر کو دھمکیاں ملتی رہیں لیکن کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت تب تک کچھ نہیں کر رہی تھی جب تک سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس نہیں لیا تھا، تب ہی ہندوؤں کو ریلیف ملا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مندر کی بحالی ہو بھی گئی تو ہزاروں لاکھوں عقیدت مندوں کو جو تکلیف پہنچی اس کا ازالہ کون کرےگا؟‘

واقعات کا پس منظر

پچھلے واقعات کو دہراتے ہوئے نائب منتظم کرک مندر روہیت کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب پہلی دفعہ مولوی افتخار سے 1997 میں دس مرلے کا مکان خرید لیا گیا تو اس کے دو دن بعد خراب چھتوں اور دیواروں کی مرمت کا کام شروع ہوا۔ اسی دوران شر پسندوں نے گاؤں میں بات پھیلا دی کہ ہندو پہاڑی پر نیا مندر تعمیر کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں مولوی شریف نامی ایک شخص کی سربراہی میں تقریباً پندرہ سو افراد کے ایک مشتعل ہجوم نے مندر پر چڑھائی کرکے اس کو مسمار کر دیا۔‘

’بابا کی سمادھی کو کھود کر اس کو جلا دیا گیا۔ پہلی بار جب مندر مسمار کیا گیا تب بھی اس میں مولوی شریف شامل تھے اور دوسری مرتبہ 2020 کے حملے کی قیادت بھی وہی کر رہے تھے اور علاقے کے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ اگر پولیس والے مرگئے تو وہ مردار اور اگر حملے میں شامل لوگ مرگئے تو وہ شہید ہوں گے۔‘

اس واقعے کے بعد، ہندو کمیونٹی نے دوبارہ مندر کے لیے کوششیں شروع کیں اور پاکستان بھر سے ہندو کمیونٹی نے 2015 میں دوبارہ مندر کو تعمیر کروایا۔

’ہندو کمیونٹی نےتقریباً چھ کروڑ میں مندر تعمیر کروایا تھا،جس کے بعد دور دور سے یاتریوں نے یہاں آنا شروع کر دیا تھا، اسی سبب مندر میں واش رومز بڑھانے، مندر تک جانے کا راستہ ٹھیک کرنے، دور دراز سے آئے مسافروں اور خواتین کے لیے الگ جگہ بنانے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ لہذا ہم نے دوبارہ پیسے جمع کرکے پاس ایک گھر جس کی کل قیمت تیس لاکھ بھی نہیں بنتی تھی، 65 لاکھ روپے میں خریدا۔‘

روہیت کمار کے مطابق، جیسے ہی انہوں نے نیا خریدا ہوا گھر مندر کے ساتھ شامل کرنا شروع کیا تو چند مولویوں نے مندر میں داخل ہوکر کام رکوایا اور ان پر مقدمہ بھی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سات اٹھ ماہ کیس چلنے کے بعد ہمارا راضی نامہ اور ایک معاہدہ ہوا، جس میں مولوی صاحبان نے کہا کہ انہوں نے اللہ اور رسول کی خاطر ہمیں معاف کیا اور وہ ہمیں سنت رسول کے مطابق دوبارہ تنگ نہیں کریں گے۔ معاہدے کا دستاویزی ثبوت مع ان کے دستخط موجود ہے۔‘

تاہم معاہدے کے کچھ ہی دن بعد مولوی شریف نے ان کے خلاف جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ منتظمین مندر کے مطابق انہوں نے جب اس معاملے پر ڈی پی او اور ڈی سی سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کروا دیا کہ جلوس کرکے سب خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔

’لیکن 30 دسمبر 2020 کو تقریبا ہزار پندرہ سو لوگوں نے دوبارہ مندر پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں مندر میں پڑی ہر شے کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔‘

نتیجتاً سپریم کورٹ نے جنوری 2021 میں ازخود نوٹس لیا اور مندر کو دوبارہ تعمیر کرنے کے ساتھ واقعے میں ملوث افراد سے اس کے پیسے وصول کرنے کا حکم دیا۔

121 لوگ گرفتار ہوئے اور تقریباً ساڑھے تین سو لوگوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے، تاہم ایک مرتبہ پھر یہ کہہ کر راضی نامہ کروایا گیا کہ اس کے بعد ان کے حقوق کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

روہیت کمار نے بتایا کہ ’کرک مندر خیبر پختونخوا کا واحد مندر ہے جس کو عوام کی جانب سے اس قدر شدت پسندی کا سامنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں واقع مندروں کو نہ اس قسم کا مسئلہ ہے اور نہ وہاں ہندوؤں کو مندر جانے سے کوئی روکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان