بھارت: ’مندر کی سکیورٹی‘ کے نام پر مسلمان خاندانوں کا ’جبری انخلا‘؟

مندر کے قریب رہائش پذیر جن 11 مسلمان خاندانوں کو ہٹانے کی ’جبری کارروائی‘ شروع ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرا دھمکا‘ کر ان سے ایک کاغذ پر دستخط لیے گئے ہیں جس پر کسی سرکاری محکمے کا نام لکھا تھا نہ سرکاری عہدیدار کا۔

ضلع گورکھ پور کے قلب میں واقع 52 ایکڑ پر پھیلے گورکھ ناتھ مندر اور مٹھ کے مہنتھ یعنی سربراہ خود یوگی آدتیہ ناتھ ہیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں سخت گیر ہندو نظریاتی موقف رکھنے والے بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے معروف گورکھ ناتھ مندر کے وسیع و عریض احاطے کے قریب 125 برسوں سے رہائش پذیر مسلمان خاندانوں کو ’مندر کی سکیورٹی‘ کے نام پر ہٹانے کی کارروائی شروع کی ہے۔

ضلع گورکھ پور کے قلب میں واقع 52 ایکڑ پر پھیلے گورکھ ناتھ مندر اور مٹھ کے مہنتھ یعنی سربراہ خود یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس زمین پر یہ مندر قائم ہے وہ اودھ (لکھنؤ) کے نواب آصف الدولہ نے بطور عطیہ مندر کی تعمیر کے لیے دی تھی۔

مندر کے قریب رہائش پذیر جن 11 مسلمان خاندانوں کو ہٹانے کی ’جبری کارروائی‘ شروع ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرا دھمکا‘ کر ان سے ایک کاغذ پر دستخط لیے گئے ہیں جس پر کسی سرکاری محکمے کا نام لکھا تھا نہ سرکاری عہدیدار کا۔

آٹے کے کاروبار سے منسلک مشیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم اپنی زمین اور مکانات دینے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں۔

’اس مندر کے اب تک کئی مہنتھ یعنی سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔ موجودہ مہنتھ (یوگی آدتیہ ناتھ) کو چھوڑ کر کسی کو بھی ہمارے یہاں رہنے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘

مشیر احمد کے بیٹے محمد مدثر بتاتے ہیں کہ ’ہم نے انتظامیہ کے عہدیداروں کے دباؤ میں آ کر ایک کاغذ پر دستخط کیے ہیں۔‘

’یہ مئی کے اواخر کی بات ہے۔ چند سرکاری عہدیدار پولیس کو ساتھ لے کر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم سرکار سے نہیں لڑ پاؤ گے۔ سامنے شیر ہے اور مقابلہ کرنا آپ کے بس میں نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اتنا ڈرایا گیا کہ ہم ایک کاغذ پر دستخط کر بیٹھے۔ آپ ہی بتائیں سرکار سے کون لڑ سکتا ہے؟ ہم میں سے کسی نے بھی لالچ میں آ کر یا اپنی رضا مندی سے دستخط نہیں کیے ہیں۔‘

محمد مدثر نے بتایا کہ ’جبری انخلا‘ کی مجوزہ کارروائی نے ہماری راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں اور دن کا سکون ہم سے چھین لیا ہے۔

’ہمارے دماغ میں صرف یہی چلتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں ہاشم پورہ میں کیا ہوا تھا۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمیں بھی ٹرک میں بھر کر کہیں ہلاک نہ کر دیا جائے۔‘

مدثر نے مزید بتایا کہ مندر کے احاطے میں درجنوں ایکڑ زمین خالی پڑی ہے جہاں وہ پولیس یا سکیورٹی فورسز کا کیمپ قائم کر سکتے ہیں۔

’آپ کو اگر پولیس یا سکیورٹی فورسز کا کوئی کیمپ بنانا ہے تو مندر کے احاطے کے اندر بنا لیں۔ درجنوں ایکڑ زمین خالی ہے۔ احاطے میں پہلے سے ہی ایک پولیس چوکی ہے اور نزدیک میں پولیس تھانہ، پھر بھی ہمارے گھر چھیننا سمجھ سے پرے ہے۔‘

جاوید اختر بھارتی ریلویز کے ایک ریٹائرڈ انجینیئر ہیں جن کا گھر مندر کے احاطے سے محض آٹھ میٹر کی دوری پر ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں کوئی سرکاری نوٹس نہیں دیا گیا، دباؤ کے تحت ایک سادہ کاغذ پر دستخط لیے گئے جس کی وجہ سے ہم سب پریشان ہیں۔‘

’میری عمر 71 برس ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی یہیں پر گزاری ہے۔ جس مکان میں، میں اور میرا خاندان رہتا ہے اس کو میرے دادا نے بنوایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب کسی خاندان کو اپنے گھر سے نکالا جاتا ہے تو اس کے لیے ایک متبادل جگہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے متبادل جگہ کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔ ہم نے انتظامیہ کے عہدیداروں سے پوچھا کہ ہم ایک لمبے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں، ہمارا کبھی اپنے ہندو بھائیوں سے جھگڑا نہیں ہوا، لیکن آج ایسی کیا نوبت آئی کہ ہمیں چلے جانے کو کہا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تو ان (سرکاری عہدیداروں) کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ حکم وفاقی حکومت سے ملا ہے اور ہمارے حد اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘

جاوید اختر کہتے ہیں کہ ہم سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کے گھر مندر کی ’سکیورٹی‘ کے لیے توڑے جائیں گے لیکن اصل منصوبہ کیا ہے ہمیں بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہا۔

’ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں، ہم مندر کے احاطے میں بھی جایا کرتے ہیں۔ کبھی آپس میں ٹکراؤ نہیں ہوا۔ اصل معاملہ کیا ہے وہ تو انتظامیہ یا حکومت کو ہی معلوم ہے۔‘

پیشے سے تاجر نور احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ صرف ہماری رہائش کا معاملہ نہیں بلکہ ہمارے روزگار کا بھی ہے۔

’ہم لوگ یہاں سے جانا نہیں چاہتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی روزی روٹی اسی علاقے سے جڑی ہے۔‘

’راضی نامے‘ پر دستخط

جس کاغذ پر مندر کے احاطے کے قریب رہائش پذیر 11 میں سے نو مسلمان خاندانوں کے دستخط لیے گئے ہیں اس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے۔

ہندی زبان میں تحریر اس کاغذ، جس کو ’سہمتی پتر یا راضی نامہ‘ کا نام دیا گیا ہے، میں کسی سرکاری دفتر کا نام لکھا ہے نہ کسی سرکاری افسر کا۔

اس کاغذ میں 11 خاندانوں کے ناموں کے اوپر لکھا ہے: ’گورکھ ناتھ مندر کی سکیورٹی نیز اس کے گرد و پیش پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے ہم درج ذیل افراد اپنی زمین اور گھر حکومت کو منتقل کرنے پر راضی ہیں۔ ہمیں اپنی زمین دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘

ضلع مجسٹریٹ گورکھ پور وجیندر پانڈیان نے بھارتی نیوز پورٹل ’دا کیونٹ‘ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ کسی سے بھی زبردستی ’راضی نامے‘ پر دستخط نہیں لیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ’ان کو اپنی زمین اور مکانوں کے عوض کروڑوں روپے ملنے والے تھے۔‘

 ’سب جیل جائیں گے‘

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم صحافی مسیح الزماں انصاری ’انڈیا ٹومارو‘ نامی نیوز پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب میں نے گورکھ پور کے مسلمان خاندان کے مجوزہ ’جبری انخلا‘ پر ضلع مجسٹریٹ وجیندر پانڈیان کے تاثرات لینے چاہے تو انہوں نے مجھ سمیت اس معاملے پر رپورٹ کرنے والے سبھی صحافیوں کے خلاف سخت دفعات بشمول نیشنل سکیورٹی ایکٹ یا این ایس اے کے تحت مقدمے درج کرنے اور جیل بھیجنے کی بات کہی۔

’میں نے جب معاملے پر ضلع مجسٹریٹ سے بات کی تو وہ سوال پوچھنے کے ساتھ ہی مجھ پر بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ وہ مسلمان خاندان خود اپنی زمین دے رہے ہیں اور تم اس کو مسلمان – ہندو معاملہ بنا رہے ہو۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ضلع مجسٹریٹ نے میری کوئی بات نہیں سنی اور مجھے لگاتار ڈانٹتے رہے۔ مجھ سے کہا کہ تم افواہ پھیلا رہے ہو اور اگر معاملے پر کہیں بھی کچھ شائع ہوا تو میں سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کروں گا۔‘

مسیح الزماں انصاری نے ضلع مجسٹریٹ وجیندر پانڈیان سے ہونے والی اپنی بات چیت کی آڈیو وائرل کر دی ہے جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’وہ اپنی مرضی سے مندر کی سکیورٹی کے لیے زمین دے رہے ہیں۔ ان کو پورا معاوضہ دیا جائے گا۔‘

’جو بھی اس معاملے کے بارے میں کچھ شائع کرے گا اس کے خلاف ہم مقدمہ درج کریں گے۔ این ایس اے کی دفعہ لگائیں گے۔ ہم کوئی ہلکی پھلکی دفعہ نہیں لگائیں گے۔ سب جیل جائیں گے۔‘

گورکھ پور کے ایک پڑوسی ضلع سے تعلق رکھنے والے مسیح الزماں نے بتایا: 'جب میں نے ضلع مجسٹریٹ کی دھمکی کے باوجود معاملے پر سٹوری کی تو انتظامیہ کے عہدیدار بشمول سب ضلع مجسٹریٹ اور تحصیلدار دوبارہ مسلمان خاندانوں کے گھر گئے اور ان سے کہا کہ آپ لوگ ویڈیو کیمرے کے سامنے یہ بات کہو کہ ہم اپنی مرضی سے یہ زمین دے رہے ہیں۔

’لیکن ان خاندانوں میں ہمت آ گئی تھی اور انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ان مسلمان خاندانوں نے سرکاری عہدیداروں سے کہا کہ آپ ہمیں پہلے قانونی نوٹس بھیج دیں پھر ہم سوچیں گے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔‘

مسیح الزمان کے مطابق 1998 میں جب یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور کے رکن پارلیمان بنے تب سے وہاں لگاتار عجیب ڈر و خوف کا ماحول بنا ہوا ہے۔

’یوگی نے 15 سال پہلے اردو بازار کا نام تبدیل کر کے ہندی بازار کر دیا۔ میاں بازار کو مایا بازار کر دیا۔ اس ڈر و خوف کی وجہ سے مسلمان بہت زیادہ خاموش رہتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر کفیل کا معاملہ اٹھایا تو مجھے تب بھی لگاتار دھمکیاں ملتی رہیں۔‘

جب اس مندر میں مسلمان جوگی ہوا کرتے تھے

اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے کانگریس رہنما اور مصنف شہنواز عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گورکھ ناتھ مندر ایک زمانے میں ہندو – مسلمان بھائی چارے کی ایک زندہ مثال تھی۔

’گرو گورکھ ناتھ، جن کے نام پر یہ مندر تعمیر ہے، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دلت تھے۔ یہ مندر اور مٹھ ایک زمانے میں آپسی بھائی چارے کی ایک زندہ مثال تھی۔ اتنا اچھا ماحول تھا کہ یہاں مسلمان جوگی بھی ہوتے تھے۔

’وہ گورکھ وانی یعنی وہ گرو گورکھ ناتھ کے لکھے ہوئے گانے گاتے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مندر کے اندر کس قدر بھائی چارہ قائم تھا۔

’گورکھ ناتھ مندر کا جو وجود ہے وہ مسلمانوں سے جڑا ہے۔ جس وسیع و عریض احاطے پر یہ مندر قائم ہے وہ زمین اودھ یعنی لکھنو کے نواب آصف الدولہ نے ہی وقف کی تھی۔‘

شہنواز عالم نے بتایا کہ ’سوال یہ ہے کہ یہ مسلمان خاندان کہیں اور کیوں رہنے جائیں؟ وہ خاندان وہاں پر 125 برسوں سے رہ رہے ہیں اور مندر کے لیے کبھی خطرہ ثابت نہیں ہوئے لیکن آج اچانک کیسے خطرہ بن گئے ہیں؟‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں حال ہی میں مقامی انتظامیہ نے ایک 112 سال پرانی مسجد کو رات کی تاریکی میں مسمار کر دیا اور مقامی لوگوں نے صبح کے وقت مسجد کا ملبہ بھی وہاں سے غائب پایا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا