یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام

ایران کو ’دو کم تر برائیوں‘ میں سے ایک کا چناؤ کرنا ہے۔’طالبان کی مکمل حمایت‘ یا پھر ’کمزور کابل حکومت کا ساتھ دے کر طالبان کے غیظ وغضب کو دعوت دینا۔‘

افغان مہاجرین جنوری 2020 میں  ایران سے ہرات لوٹ رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران افغانستان کے 15 سے زائد صوبوں کے صدر مقامات پر طالبان ’فتح‘ کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ رواں مہینے کے اختتام تک افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے باعث یہ جنگ زده ملک دور رس نتائج کی حامل تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، جن کے اثرات نہ صرف داخلی طور بلکہ شرق اوسط کے طول وعرض میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے بعد افغانستان کی داخلی صورت حال سے متاثر ہونے والا دوسرا ملک یقیناً ایران ہے۔

افغانستان کی داخلی صورت حال نے ایران کے سیاسی جغرافیے کو کئی پہلوؤں سے متاثر کیا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد ایرانی مفادات اور سلامتی کی صورت حال کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس پیش رفت نے ایران سمیت شرق اوسط کے ملکوں کے سامنے کئی نئے سوال لا کھڑے کیے ہیں اور سیاسی پنڈت سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ افغانستان کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال سے ایران کیسے نبرد آزما ہوگا؟

ایران کی افغان حکمت عملی

عراق کی طرح افغانستان میں بھی ایران ’ملٹی ٹریک‘ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تہران، کابل میں حکومت کی تشکیل اور اس میں اثر ونفوذ کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایران نے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی پر ناراض کئی مسلح ’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کی کھلے عام حمایت کی، نیز افغانستان کے وسط اور شمالی علاقوں میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے ایران نے ’شمالی اتحاد‘ جیسے طالبان مخالف افغانوں سے بھی تال میل بڑھائی۔ ایران کو ڈر ہے کہ کہیں ’داعش‘ کی شاخ خراسان صوبے میں اپنے قدم نہ جمالے۔

دوسری جانب افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی غرض سے تہران، اشرف غنی کی حمایت کو عار نہیں سمجھتا اور حکومت سازی کے مرحلے پر ایران نواز افغان امیدواروں کی انتخابی مہم میں دامے، درمے، قدمے اور سخنے حصہ ڈالتا رہا ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی سے متعلق امریکی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام کے مصداق ’ایران نے تحریک طالبان کے جنگجوؤں کو بھی اسلحہ اور تربیت دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔‘

امریکا کے سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کئی بار ایران سے مطالبہ کیا کہ وه افغان طالبان کی حمایت بند کرے اور ’القاعده‘ کے سرکرده رہنماؤں کو اپنے ہاں پناه دینے سے اجتناب کریں۔ طالبان سے شدید دشمنی کے باوجود ایران نے شدت پسند جنگجوؤں سے تعاون کا جواز یہ تراشا کہ تہران اور طالبان افغانستان کو غیر ملکی فوج سے پاک کرنے جیسی ’مشترکات‘ پر یقین رکھتے ہیں۔

افغان طالبان کے سنی مسلک سے خائف ایران 1996 سے 2001 تک انہیں اپنا دشمن سمجھتا رہا۔ اس سوچ کی بنیاد طالبان کا عقیده واعمال تھے۔ طالبان نے افغانستان کے مغربی اور شمالی علاقوں میں فارسی بان ہزاره شیعہ برادری پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ایران خود کو افغانستان میں بسنے والے ہزاره شیعوں کا اولین محافظ سمجھتا ہے۔

عملیت پسندی یا بند گلی؟

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان اور واشگٹن کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کا ڈول ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ان امن مذاکرات کا حتمی نتیجہ یہ نکلا: ’امریکا، افغانستان سے رواں برس فروری میں اپنی فوجیں اس شرط پر واپس بلائے گا کہ طالبان، افغان انتظامیہ سے کابل میں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تاکہ ملکی امور چلانے سے متعلق اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔‘ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ طالبان، افغانستان میں ’القاعده‘ کو قدم جمانے میں تعاون فراہم نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنی سرزمین کو امریکا کے خلاف استعمال ہونے دیں گے جبکہ خراسان سے ’داعش‘ کی باقیات کے خاتمے میں مدد دیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے تقریباً چھ ماه کی تاخیر کے بعد دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگست 2021 کے اختتام تک تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے۔ کابل میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کی غرض سے صرف 650 امریکی فوجی افغانستان میں رہیں گے۔‘ تادم تحریر افغانستان سے 95 فیصد امریکی فوج کا انخلا مکمل ہوچکا ہے۔

 

امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان اور ایران کے لیے ہمالیہ سے بڑے سیاسی اور فوجی چیلنج سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان ہلکی پھلکی جنگی موسیقی سرحد کے پار بھی انتہائی تشویش سے سنی جا رہی ہے۔ خطے اور عالمی سطح پر نہ تھمنے والی دہشت گردی کی لہر پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ ہمسایہ ملک دنیا اور خود کو ان خطرات کے مقابلے کے لیے جتنی جلدی تیار لیں، ان کے لیے بہتر ہوگا۔

 

ادھر طالبان کے حملے سے ایرانی سرحد پر تشدد کی لہر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ایران کو خطره ہے کہ دہشت گردی کی عفریت دوباره سر نہ اٹھا لے۔ اسے ڈر ہے کہ جنگ زده ملک میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے والی ہزاره شیعہ اقلیت طالبان کے مکمل کنڑول کے بعد پابندیوں کا نشانہ نہ بن جائے۔ مہاجرین کے لامتناہی بہاؤ کا رخ ایران کی سمت نہ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈال رہا ہے۔

ایران ایک مدت سے افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کار بننے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں اچانک پیدا ہونے والی ڈرامائی اور دھماکہ خیز صورت حال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے امریکہ کو یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ وه خطے میں دوباره کسی مہم جوئی سے پہلے دسیوں بار سوچے گا۔ تاہم حالیہ کشیدگی خطے اور بالخصوص ہمسایہ ملکوں اور ایران کے لیے بڑا چیلنج بھی بن سکتی ہے۔ سنی طالبان افغانستان کی شیعہ کیمونٹی کو تختہ مشق بنا سکتے ہیں اور اگر ان کے ’انتقام‘ کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو وه تہران کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔

خاکم بدہن صورت حال قابو سے باہر ہونے کی صورت میں طالبان نے افغانستان میں شیعہ برادری کو گزند پہنچایا تو عراق۔ایران جنگ کے دنوں سے پروان چڑھنے والے تعلقات کا پاس رکھتے ہوئے تہران ’مظلوم اقلیت‘ کے بچاؤ کے لیے تساہل سے کام نہیں لے گا۔ اس کا فوری اور منفی نتیجہ ایران کی جانب مہاجرین کے سیلاب کی صورت میں نکلے گا۔

اقوام متحده کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں حالیہ کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ ہفتے 200 افغان شہری، ایران میں پناه لینے پر مجبور ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک چار لاکھ افغان داخلی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان میں دو لاکھ 44 ہزار  نے صرف رواں برس مئی کے بعد نقل مکانی کا کشت کاٹا ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان کے ساتھ ’معاملہ‘ سپاه پاسداران انقلاب کے ’القدس بریگیڈ‘ کے دائره کار میں آتا ہے۔ ایران کو پہلے ہی متعدد سیاسی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ مشرقی سرحد پر سکیورٹی چیلنج نے سر اٹھایا تو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کے دفاع کے لیے ایران کو فوج موبیلائز کرنا پڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں شام، عراق اور لبنان میں ایران کے ’اثرو رسوخ‘ میں کمی کا امکان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی انخلا سے متعلق ایران میں بیک وقت دو ٹرینڈز دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض ایرانی ذرائع ابلاغ ’طالبان‘ کی شان میں تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ ان کے بقول’القاعده‘ اور ’داعش‘ کے مقابلے میں طالبان کی سوچ میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ میڈیا ہی کا ایک دوسرا کیمپ امریکی انخلا کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ محدود آپشن ہونے کی وجہ سے ایران نے عملیت پسندی کا مظاہره کرتے ہوئے تنازع کے دونوں فریقوں (حکومت وطالبان) سے تعلق کو ’متوازن انداز‘ میں استوار کیا ہے۔

ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران نے طالبان سے تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔ سابق ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف گذشتہ چند مہینوں کے دوران کئی مرتبہ طالبان کے عہدیداروں کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ طالبان کے وفد نے ایران کے سینیئر سکیورٹی عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی پر ایران خوشی سے بغلیں بجاتا دکھائی دیتا ہے۔ وه اسے انکل سام کی ’شرمناک ناکامی‘ سمجھتا ہے کیونکہ جارج بش سینیئر کے دور سے واشنگٹن فوجی طاقت کے بل پر ایران میں ’رجیم چینج‘ کی کئی کوششیں کرچکا ہے۔ امریکی انخلا کے بعد سجنے والے سٹیج میں عراق اور شام کے بعد ’ایرانی مفادات‘ نیا اضافہ ہوں گے۔

ایران اور طالبان کے درمیان رابطوں کے باوجود یہ تشویش اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر طالبان، افغانستان میں ’امارت اسلامی‘ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو لا محالہ خراسان میں ’داعش‘ اور ’القاعده‘ مضبوط ہو گی۔ اگر طالبان کی خفیہ یا اعلانیہ مدد سے انتہا پسند گروپوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تو اس سے ایران کی مشرقی سرحد پر تشدد کی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے، جس سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

افغان صوبے بلخ میں ایرانی قونصل خانے کی بندش انہی مسائل کی جانب ایک اشارہ ہے، جس کے بعد افغانستان کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد پر تہران نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پوری جنگی تیاری کے ساتھ لشکر اور فوجی ساز وسامان بجھوا دیا ہے تاکہ ممکنہ خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

نئے ایرانی صدر اور افغان ایشو

گذشتہ مہینے ایرانی وزارت خارجہ نے طالبان سمیت اعلیٰ اختیاراتی افغان وفود کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے احیا کے بعد نئے ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی میں ’طالبان‘ دوسرا اہم ایجنڈا آئٹم ہیں۔ ایران کو ’دو کم تر برائیوں‘ میں سے کسی ایک کے چناؤ جیسی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ پہلا آپشن ’طالبان کی مکمل حمایت ہے‘ جبکہ دوسرا آپشن ’کمزور افغان حکومت کا ساتھ دے کر طالبان کے غیظ وغضب کو آواز دینا ہے۔‘ ایران کی عملیت پسندی اور طالبان کی وسعت قلبی دونوں کا کڑا امتحان ہے۔ ایسی صورت حال میں درمیانی راه نکالنا ہی اصل کامیابی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ