ایرانی صدر کی حلف برداری میں یورپی یونین نمائندے کی موجودگی پر تنقید

1988 میں ’ایرانی انقلاب‘ کے بعد سیاسی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر پھانسی میں ابراہیم رئیسی کے کردار کی وجہ سے ناقدین نے ان کی صدارت کی سرکاری تقریب میں یورپی یونین کے نمائندے کی موجودگی کی مذمت کی۔

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم  کے سیکرٹری جنرل زیاد النخلہ ،  حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور لبنانی حزب اللہ پارٹی کے نائب صدر نعیم قاسم کے ساتھ پچھلی صف میں موجود یورپی یونین نمائندے۔ (تصویر: مشرق ٹی وی)

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی حلف برداری کے موقع پر یورپی یونین کے نائب وزیر خارجہ اینریک مورا فلسطینی اور لبنانی عسکریت پسند گروپوں کے نمائندوں کے عین پیچھے دوسری صف میں بیٹھے دکھائی دیے۔ یہ تصاویر بعدازاں دنیا بھر کے میڈیا میں شہہ سرخی بن گئیں۔

جمعرات (پانچ اگست) کو ابراہیم رئیسی کی حلف برداری کی تقریب میں یورپی یونین کے نمائندے کی موجودگی کو اسرائیل، دیگر ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سابق شاہ ایران کے صاحبزادے رضا پہلوی جیسی سیاسی شخصیات نے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

1988 میں ’ایرانی انقلاب‘ کے بعد سیاسی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر پھانسی میں ابراہیم رئیسی کے کردار کی وجہ سے ناقدین نے ان کی صدارت کی سرکاری تقریب میں یورپی یونین کے نمائندے کی موجودگی کی مذمت کی جو کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی اقدار کے عین مخالف ہے۔

حلف برداری کے فوراً بعد مشرق نیوز سمیت ایران کے دیگر سرکاری ذرائع ابلاغ نے یہ تصاویر شائع کیں اور یورپی یونین کے نمائندے کے تقریب میں موجود ہونے کو اہم سیاسی کامیابی گردانا گیا۔

ایرانی ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ ’مزاحمتی قیادت کے پیچھے موجود یورپی یونین کے نمائندے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے سیاسی لٹریچر میں ’مزاحمت کے محور‘ سے مراد لبنان میں حزب اللہ کے تین گروہ، حماس اور فلسطین میں جدوجہد اور شام اور عراق سمیت یمن میں برسرپیکار شدت پسند گروہ لیے جاتے ہیں۔  

مذکورہ تقریب سے متعلق تصویر میں فلسطینی عسکری تنظیم کے سیکرٹری جنرل زیاد النخلہ، حماس سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور لبنانی حزب اللہ کے نائب صدر نعیم قاسم سامنے کی صف میں موجود ہیں، جب کہ دوسری صف میں ان کے پیچھے اینریک مورا موجود تھے۔

امریکہ اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گلاد اردان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مذکورہ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا۔ ’وہ انسانی حقوق کے لیے کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں جب وہ ایران کے ایک جنگی جہاز پر مہلک حملے کے چند دن بعد اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس پر غور کرنے سے پہلے دہشت گرد گروہوں کے نمائندوں کے پاس بیٹھے ہیں؟‘

آسٹریا میں اسرائیلی سفارت خانے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس تصویر کو پوسٹ کیا، جس میں حزب اللہ، حماس اور عسکریت پسند رہنماؤں کے ساتھ یورپی یونین کے نمائندوں کی موجودگی کو ’عجیب مگر حقیقی‘ قرار دیا گیا ہے۔ ٹویٹ میں کہا گیا کہ تینوں گروپ یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

’یہ ایک شرمناک بات ہے‘

مسیح علی نژاد، جو امریکہ میں مقیم ایرانی انسانی حقوق کارکن ہیں اور جنہوں نے ایرانی صدر کی حلف برداری سے پہلے بھی یورپی یونین کی اس میں نمائندگی پر اعتراض کیا تھا، نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اسی تصویر کو پوسٹ کیا اور لکھا: ’یورپی یونین کے ایلچی اینریک مورا ایران کے نئے صدر کی حلف برداری کے موقعے پر دو دہشت گرد تنظیموں حزب اللہ اور حماس کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، جنہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ میں مغرب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یورپی یونین کی توثیق اور ابراہیم رئیسی کی حمایت کی مذمت کرے۔‘

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی ترجمان نبیلہ مسرالی نے اپنے نمائندے کو مذکورہ تقریب میں بھیجنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ’اینریک مورا اس تقریب میں شرکت کریں گے کیونکہ نئی ایرانی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہمارے لیے اہم ہیں۔‘

اینریک مورا ایران کی ایٹمی صلاحیت سے متعلق ویانا مذاکرات میں برجام کمیشن کے کوآرڈینیٹر اور سربراہی کمیٹی میں شامل رہے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں چھٹے دور کے بعد یہ مذاکرات رک گئے، ایران نے اعلان کیا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں نئی ​​ایرانی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا