طالبان کے آنے میں ہماری فوجی حکمت عملی کا ہاتھ نہیں: پاکستانی سفیر

امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر نے اس بات کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے کہ ان کے ملک کی فوجی حکمت عملی کا افغانستان میں طالبان کے آنے میں کسی قسم کا ہاتھ ہے۔

امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان (فوٹو: یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس)

امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر نے اس بات کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے کہ ان کے ملک کی فوجی حکمت عملی کا افغانستان میں طالبان کے آنے میں کسی قسم کا ہاتھ ہے۔

اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ پاکستان دیگر بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جنگ زدہ ملک افغانستان میں سیاسی حل کا خواہاں رہا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے یہ بیان امریکی کانگریس کے ریپبلکن رکن مائیک والز کے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط کے جواب میں جاری کیا ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں لکھے گئے اس خط میں مائیک والز کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی فوجی حکمت عملی طالبان کو ہدایات دیتی رہی ہے۔‘

انہوں نے لکھا تھا: ’امریکہ کو تمام امداد روکتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں لگانے پر غور کرنا چاہیے۔‘

اس کے جواب میں اسد مجید خان نے والز کو ایک خط میں بتایا: ’یہ دعویٰ کہ پاکستانی ’فوجی حکمتِ عملی‘ نے تین لاکھ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا، وہ فوج جسے امریکی ٹیکس دہندگان کے کم از کم 83 ارب ڈالر کے خرچ سے تربیت دی گئی تھی، امریکی فوج کے اپنے جائزوں سے میل نہیں کھاتا، جن میں کہا گیا تھا کہ اے این ڈی ایس ایف کو ایک عرصے سے عزم کی کمی، فوج سے بھگوڑا ہونے کے واقعات اور ’جعلی فوجیوں‘ جیسے مسائل کا سامنا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسد مجید خان نے اس جانب توجہ دلائی کہ افغان انتظامیہ کئی سالوں سے طالبان کے ہاتھوں مختلف جگہوں کا قبضہ پہلے ہی کھو چکی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا کابل میں گرنا حیران کن تھا لیکن ’سرپرائزنگ‘ نہیں تھا۔

انہوں نے والز کو لکھے گئے خط میں کہا کہ پاکستان پہلے ہی ہر کسی کو یہ بات واضح طور پر کہہ چکا تھا کہ افغانستان میں اس کا کوئی بھی پسندیدہ نہیں ہے اور وہ کسی بھی سیاسی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔

’شاید آپ کو یہ جاننے میں دلچسپی ہوگی کہ جس روز صدر اشرف غنی اپنے لوگوں کو چھوڑ کر چلے گئے، اسی دن پاکستان مختلف افغان سیاست دانوں، جن میں سابق شمالی اتحاد کے رہنما بھی شامل تھے، کی میزبانی کر رہا تھا، جس کا مقصد افغانستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مشترکہ سوچ کو پھیلانا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان حکومت کے تیزی سے گرنے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایک سیاسی مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے کے لیے پیسے لگانے اور کوششیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے غیرملکی افواج کے انخلا کا اعلان ہوتے ہی طالبان نے صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کے خلاف اپنی مہم کو تیز کر دیا تھا۔

طالبان کی جانب سے 15 اگست کو کابل پر قبضے سے قبل ہی کئی اہم شہری اور سٹریٹجک سرحدی گزر گاہوں کا کنٹرول حاصل کرلیا گیا تھا۔

پاکستانی سفیر نے اپنے خط میں لکھا کہ ’ان تمام افغان افراد کے لیے پاکستان کی سرحدیں اور دروازے کھلے ہیں جو ہماری جانب دیکھ رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان