کابل کے ہوائی اڈے سے اندرون ملک پروازیں دوبارہ شروع

آریانا افغان ائیر لائن کا کہنا ہے کہ ہفتے کو کابل سے ہرات، مزار شریف اور قندھار کے شہروں کے لیے پروازوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

اپنے فیس بک کے صفحے پر پوسٹ کیے جانے والے ایک پیغام میں آریانا افغان ائیر لائن کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں اندرون ملک پروازوں کا دوبارہ آغاز کرنے پر فخر ہے۔’(اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے سے دیگر شہروں کے لیے اندرون ملک پروازیں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آریانا افغان ائیر لائن کا کہنا ہے کہ ہفتے کو کابل سے ہرات، مزار شریف اور قندھار کے شہروں کے لیے پروازوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

اپنے فیس بک کے صفحے پر پوسٹ کیے جانے والے ایک پیغام میں آریانا افغان ائیر لائن کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں اندرون ملک پروازوں کا دوبارہ آغاز کرنے پر فخر ہے۔’


ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے: احمد مسعود

افغانستان کے صوبہ پنج شیر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے جمعے کو صوبے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ شروع کیا تھا جس کا میابی اور ناکامی کے بارے میں فریقین کے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔

ہفتے کو پنج شیر سے شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ لڑائی میں سینکڑوں جنگجو مارے گئے ہیں۔

سابق نائب صدر امر اللہ صالح نے اپنے بارے میں میڈیا میں گردش کرنے والی افواہوں کی تردید کی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی رپورٹس ’بے بنیاد‘ ہیں اور وہ ابھی پنج شیر میں ہی ہیں۔

افغانستان کے معزول نائب صدر کا کہنا ہے کہ طالبان نے پنج شیر کے لیے آنے والی انسانی امداد بند کر دی ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم ہے۔

اس سے قبل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے صوبہ پنج شیر میں طالبان اور مزاحمتی محاذ کے درمیان جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں بھائیوں کو جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔‘

حامد کرزئی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا: ’بدقسمتی سے حالیہ دنوں میں اصلاح پسندوں کی کوششوں کے باوجود فوجی آپریشن اور لڑائی پنج شیر میں شروع کر دی گئی ہے، گہری تشویش کا معاملہ ہے جس کے نتائج میرے خیال میں ملک اور عوام دونوں کے مفاد میں نہیں نکلیں گے۔ ‘

اپنے پیغام میں انہوں نے فریقین سے مطالبہ کیا کہ ’موجودہ مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں تاکہ ہمارے مصیبت زدہ لوگ مکمل امن اور خوشی سے لطف اندوز ہو سکیں۔‘

ادھر پنج شیر میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے رہنماؤں میں سے ایک احمد مسعود نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا ہے کہ ’ہم کبھی خدا کی راہ میں جنگ، آزادی اور انصاف سے پیچھے نہیں ہٹے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’پنج شیر جیسی جنگ جو اب تک جاری ہے جس میں ہماری ہیراتی بہنوں نے بہادری کے ساتھ سچ کا علم بلند کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے اب تک سچ کی سربلندی کے لیے جنگ کا مطالبہ ترک نہیں کیا۔‘

لوگ اب تک تھکے نہیں ہیں اور وہ کسی بھی دھمکی سے خوف ذدہ نہیں۔ شکست جب ہوتی ہے جب آپ اپنے حقوق کی خاطر لڑنا چھوڑ دیں اور تھک جائیں۔‘

احمد مسعود نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا کہ ’ہمارے لوگ خدا پر یقین رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ترقی یافتہ اور آزاد ملک کی تعمیر کے لیے آگے بڑھتے رہیں گے۔‘

دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے چند گھنٹوں قبل اپنے ٹوئٹر پیغام میں طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مجاہدین‘ کابل اور پورے ملک میں ہوائی فائرنگ سے اجتناب کریں چاہے وہ خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے کی جارہی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہتھیار اور بارود آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن کسی کو انہیں ضائع کرنے کا اختیار نہیں۔ خدشہ ہے کہ اندھی گولی شہریوں کو نقصان پہنچائے گی تو غیر ضروری طور پر گولیاں نہ چلائیں۔‘

گذشتہ شب سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں کابل میں شدید ہوائی فائرنگ کی جا رہی ہے۔

کہا جا رہا تھا کہ یہ فائرنگ پنج شیر پر طالبان قبضے کی خوشی میں کی جا رہی ہے۔ تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی البتہ ذبیح اللہ مجاہد کی اس ٹویٹ کے بعد واضح ہے کہ طالبان کو ہوائی فائرنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔


گوگل نے افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کر دیے: رپورٹ

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سابق سرکاری حکام اور ان کے بین الاقوامی شراکت داروں کے ڈیجیٹل ٹریل کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں اور ایسے میں گوگل نے افغان حکومت کے نامعلوم تعداد میں ای میل اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔

روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت کے طالبان کے ہاتھوں خاتمے کے ہفتوں بعد سامنے آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا کہ کس طرح بائیو میٹرک اور پے رول ڈیٹا بیس کو نئے حکمران اپنے دشمنوں کا شکار کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

جمعے کو ایک بیان میں گوگل الفابیٹ انکارپوریٹڈ نے بتایا کہ کمپنی افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی کہ افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کیے گئے ہیں۔

سابق افغان حکومت کے ایک عہدے دار نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ طالبان سابق حکام کی ای میلز تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے گذشتہ ماہ ان سے کہا تھا کہ وہ اس وزارت کے سرورز پر موجود ڈیٹا کو محفوظ کریں جس کے لیے وہ کام کرتے تھے۔

ان کے بقول:’اگر میں ایسا کرتا ہوں تو وہ سابقہ وزارت کے ڈیٹا اور سرکاری مواصلات تک رسائی حاصل کر لیں گے۔‘

سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدے دار نے بتایا کہ انہوں نے طالبان کے اس حکم کی تعمیل نہیں کی اور اب وہ روپوش ہیں۔

عوامی طور پر دستیاب میل ایکسچینجر ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً دو درجن افغان حکومتی اداروں نے سرکاری ای میلز کے لیے گوگل سرورز کا استعمال کیا جن میں وزارت خزانہ، وزارت صنعت، اعلیٰ تعلیم اور معدنیات کی وزارتیں شامل ہیں۔

کچھ مقامی حکومتوں کی طرح افغانستان کے صدارتی پروٹوکول کا دفتر بھی گوگل اکاؤنٹس استعمال کرتا رہا ہے۔

سرکاری ڈیٹا بیس اور ای میلز سابق انتظامیہ کے ملازمین، سابق وزرا، سرکاری ٹھیکے داروں، قبائلی اتحادیوں اور غیر ملکی شراکت داروں کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ انٹیلی جنس فرم ’ڈومین ٹولز‘ کے سکیورٹی ریسرچر چاڈ اینڈرسن نے کہا: ’یہ بات معلومات کا حقیقی خزانہ ثابت ہو سکتی ہیں کہ کون سی وزارتوں کے کس ای میل پلیٹ فارم پر اکاؤنٹس ہیں۔‘

انہوں نے سرکاری ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف گوگل شیٹ پر سابق حکومت کے عہدے داروں کی فہرست ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

میل ایکسچینجر ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مائیکروسافٹ کارپوریشن کی ای میل سروسز کئی افغان حکومتی ایجنسیوں نے بھی استعمال کیں جن میں وزارت خارجہ اور ایوان صدر شامل ہیں۔

لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ سافٹ ویئر فرم ڈیٹا کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ مائیکرو سافٹ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

اینڈرسن نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو کنٹرول کرنے کی کوشش پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا: ’بھاگنے والی حکومت کی ڈیجیٹل معلومات پرانے ہیلی کاپٹروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوسکتی ہیں۔‘


امریکی فوجی اڈوں پر افغان پناہ گزینوں کے لیے ’چھوٹے شہر‘

امریکہ پہنچنے والے افغان پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر صفائی، خوراک اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فوجی اڈوں پر چھوٹے شہر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے پی نے شمالی کمان کے سربراہ اور امریکی ایئر فورس کے جنرل گلین وان ہرک کے حوالے سے بتایا کہ جمعے تک انخلا کے عمل میں آٹھ امریکی اڈوں پر 25 ہزار سے زائد افغان شہری پہنچ چکے ہیں۔

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ان اڈوں پر زبان، ثقافتی اقدار اور دیگر حوالوں سے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ انہوں نے پینٹاگون کے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہمیں چیلنجز درپیش ہیں اور ہم ان اڈوں پر آٹھ چھوٹے شہر بنا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اڈوں پر چند ہاسٹلز یا ہاؤسنگ یونٹس کے لیے ایک فوجی افسر کو ’میئر‘ کے طور پر نامزد کیا ہے جب کہ ان کا ایک افغان ہم منصب بھی ہو گا تاکہ وہ مسائل کے بارے میں بات چیت کر سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ شمالی کمان نے محکمہ دفاع سے اضافی ماہر لسانیات بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے جو روانی سے افغان شہریوں سے بات کر سکیں۔

نارتھ امریکن ایرو سپیس ڈیفنس کمانڈ (نوراڈ) کے سربراہ وان ہارک نے کہا کہ امریکی فوج بالآخر 50 ہزار سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو امریکہ بھر کے آٹھ اڈوں پر رکھنے کی گنجائس پیدا کرے گی اور ممکنہ طور پر اس مقصد کے لیے اضافی مقامات کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ان امریکی اڈوں پر سنگل افغان مرد و خواتین کو الگ الگ رکھا گیا   ہے جب کہ خاندانوں کی پرائیویسی کا بھی ممکنہ حد تک خیال رکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں میں کرونا کے مثبت کیسز کے باعث کچھ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم سکیورٹی کے حوالے سے سنگین مسائل درپیش نہیں آئے۔


پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں: برطانیہ

پاکستان کے دورے پر آئے برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب نے جمعے کو طورخم سرحد کے دورے کے موقعے پر کہا کہ پاکستان برطانیہ کا ناقابل تردید شراکت دار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے چاہے دہشت گردی کے خلاف کارروائی ہو، انسانی زندگیوں کو بچانے کا سوال ہو یا پھر خطے میں قیام امن، ہم اپنے پاکستانی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا