طالبان کے آنے کے بعد کوئٹہ میں افغان کرنسی کے خریدار نا پید

افغانی کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کوئٹہ میں کرنسی کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ اب کوئی بھی اسے خریدنے نہیں آ رہا ہے۔

کوئٹہ کے ایک منی چینجر کا کہنا ہے کہ حالات اور افغانی کرنسی کی خراب صورتحال کے باعث جو لوگ پہلے تبادلے کے لیے آتے تھے وہ بھی اب صرف فروخت کرنے آرہے ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے صورتحال مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور اس سب کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں رک گئی ہیں اور افغان کرنسی کی قدر میں کمی کے ساتھ اس کی خرو فروخت کا کاروبار بھی بند ہو گیا ہے۔

افغانی کرنسی کی قدر میں کمی کے باعث کوئٹہ میں کرنسی کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ اب کوئی بھی اسے خریدنے نہیں آ رہا ہے۔

کوئٹہ کے مرکزی بازار میں گذشتہ 40 سال سے کرنسی کا کاروبار کرنے والے عبدالقادر نے بتایا کہ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے باعث افغانی کرنسی کی قدر روز بروز گر رہی ہے۔

عبدالقادر بتاتے ہیں کہ حالات اور افغانی کرنسی کی خراب صورتحال کے باعث جو لوگ پہلے تبادلے کے لیے آتے تھے وہ بھی اب صرف فروخت کرنے آرہے ہیں۔

’چونکہ افغانستان میں بازار بند ہیں اور پیسوں کی ترسیل کا کوئی نظام نہیں جس کے باعث اب کوئی بھی افغانی کرنسی میں کاروبار نہیں کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ’ہم کرنسی کی صورت میں افغانستان نہ کچھ بھیج سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں سے منگوا سکتے ہیں۔‘

’پہلے ایک ہزار افغانی کے پاکستانی دو ہزار روپے بنتے تھے جو اب کم ہوکر 18 سو روپے ہوگئے ہیں۔‘

عبدالقادر مزید کہتے ہیں کہ ’ایران ہمارے سامنے ہے، جس کی کرنسی کی قدر پہلے ایک لاکھ تمان ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر تھا۔ جب سے امریکہ کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات خراب ہوئے ہیں، اب چھ سو پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک لاکھ ایرانی تمان بنتے ہیں، جس سے کرنسی کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘

عبدالقادر اور ان جیسے دیگر لوگوں کا کاروبار افغانستان کے حالات اور سرحد کے حالات سے جڑا رہتا ہے۔ اگر وہاں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ان کے کاروبار پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔

’اگر سرحد پر کوئی مسئلہ نہ ہو اور آمدورفت جاری رہے تو یہاں پر بھی کاروبار چلتا ہے۔ سرحد کی بندش سے یہاں بھی کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ افغانستان میں اشیائے خورد و نوش، پیٹرول اور گیس سمیت دیگر تمام سامان ہمسایہ ممالک سے جاتا ہے، جس میں ایران، تاجکستان اور پاکستان شامل ہے۔

افغانستان میں غیر یقینی صورتحال اور اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں اشیا کی قلت پیدا ہوگئی جس کے بعد اب طالبان کی درخواست پر ایران نے سامان کی ترسیل دوبارہ شروع کر دی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے متصل افغان صوبے قندھار کے ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ تاجر افغانی کرنسی کے بجائے پاکستانی روپے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا