شامی مہاجر بچے: ہر چہرہ ایک داستان

اس وقت ساڑھے 6 لاکھ سے زائد شامی بچے بے گھر ہونے کے بعد لبنان میں مہاجرین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ جن میں سے 46 فیصد کو رسمی وغیر رسمی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شام کی اگلی نسل لبنان کے کسی پناہ گزین کیمپ میں اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھی ڈاکٹر، استاد، وکیل، پائلٹ اور بیلے ڈانسر بننے کے خواب دیکھنے والی ہوگی، جسے عالمی رہنماؤں کے وعدے پورے ہونے کا انتظار ہوگا۔

شام میں کئی برس سے جاری جنگ اور شورش کے بعد اب تک لاکھوں بچے ترک وطن پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لبنان میں مقیم ان شامی بچوں میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔ یہ بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کا دعویٰ ہے کہ لبنان میں 9 لاکھ 48 ہزار 849 شامی مہاجرین رجسٹرڈ ہیں لیکن مرکزی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے مطابق مہاجرین کی اصل تعداد 18 لاکھ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت 6 لاکھ 66 ہزار 491  شامی بچے بے گھر ہونے کے بعد لبنان میں مہاجرین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان بچوں میں سے 46 فیصد کو رسمی وغیر رسمی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ بچوں کی بہت بڑی تعداد جن میں 10 برس اور اس سے زائد عمرکے بچے شامل ہیں، اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔

ان ہی میں سے ایک پانچ سالہ شیاما الحسن ہیں، جو لبنان کے علاقے جبجنین میں قائم مہاجر بستی کی عارضی رہائش گاہ میں مقیم ہیں۔ شیاما کا خاندان 2014 میں شام کے شورش زدہ شہر حلب سے لبنان آیا تھا۔ یہ خاندان حلب کے ہوائی اڈے کے پاس رہائش پذیر تھا جو شام کی آزاد فوج کے زیرِ انتظام تھا۔ جب یہ خاندان رات کی تاریکی میں کار میں بیٹھ کرفرار ہو رہا تھا تو انہیں گھر کے قریب سڑکوں اور گلیوں میں لاشیں بکھری نظر آئیں۔

شیاما اکثر دروازے میں بے حس و حرکت بیٹھی خیالات میں گم دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے ارد گرد بھوکی بلیاں گھومتی رہتی ہیں۔ شام کو تیز ہوا چلتی ہے تو سر پر تنا ہوا  خیمہ تیز ہوا میں پھڑ پھڑاتا ہے۔ شیاما کو بیلے ڈانسر بننے کا شوق ہے۔

جہاں تک شیاما کا تعلق ہے اس کا فوری مستقبل پہلے سے طے شدہ ہے۔ وہ ایک ماہ میں وادی بیکا میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہوگی جہاں وہ یومیہ چند ڈالرز کے عوض آلو کے کھیتوں میں کام کرے گی۔

تین سالہ احمد عبد العزیز فرائی وادی بیکا کے شامی مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان 2014 میں شام کے شہر رقہ  سے یہاں پہنچا تھا۔ یہ خاندان دہری مصیبت میں مبتلا تھا۔ شام میں رہتا تو خاندان کے افراد کو سرکاری فوج میں جبری بھرتی ہونا پڑتا یا داعش والے اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کرتے۔ دوسری صورت لبنان ہجرت تھی۔ احمد کے والد پیشے کے اعتبار سے مصور اور ڈیکوریٹر ہیں لیکن لبنانی آجر نے انہیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی۔

نو سالہ وردہ الحمود اپنے خاندان کے ساتھ لبنان کی وادی بیکا کے محسن یاسین کے مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ ان کا خاندان شامی شہر حلب سے یہاں پہنچا تھا جہاں سرکاری فوج اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے درمیان شدید لڑائی جاری تھی۔ فضائی حملے میں اس خاندان کا مکان تباہ ہو گیا تھا۔ لبنان پہنچنے سے قبل یہ شامی خاندان 2 ماہ تک ترکی کی سرحد پر مقیم رہا۔ لبنان پہنچانے کے لیے سمگلروں نے خاندان سے 1200 ڈالر طلب کیے۔ اس وقت اس خاندان کے لوگ 13 ڈالر یومیہ اجرت پر آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔

 ایمن الیسر اپنے خاندان کے ساتھ 2016 میں لبنان کی وادی بیکا پہنچے تھے۔ ہمسائے کے مکان کے فضائی حملے کا نشانہ بننے کے بعد ایمن کے خاندان کو فرار ہونا پڑا۔ فضائی حملے میں ہمسایہ خاندان کے تمام افراد مارے گئے تھے۔ مہاجر کیمپ میں ایمن کے بہت سے دوست ہیں اور وہ سکول بھی جاتے ہیں۔  

2012 میں جنگ کے آغاز کے بعد آٹھ سالہ یاسمین احمد کو حلب شہر چھوڑنا پڑا۔ ان کا خاندان لبنان کی وادی بیکا میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا۔ خاندان کے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے شام واپس جانا ناممکن ہوگا کیونکہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ وہاں ان کا کچھ بچا بھی ہے یا نہیں جہاں جا کر وہ رہ سکیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے خاندان بھر کو گزارے کے لیے ماہانہ 2 سو ڈالر دیئے جاتے ہیں۔

12 سالہ نجوہ علوی 2014 میں وسطی شام کے شہر پالمیرا سے اپنے خاندان کے ساتھ لبنان میں قائم مہاجر کیمپ میں پہنچی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد شام میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی۔ نجوہ کے خاندان کو کھانے پینے کی اشیا کے لیے اپنے مویشی فروخت کرنے پڑے۔ اہل خانہ کی خاطر خاندان کے سربراہ کو کوئی بھی کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس وقت اس خاندان کی گزر بسر شامی مہاجر برادری کی طرف سے دی جانے والی خوراک پر ہے۔ نجوہ خوش قسمت ہیں وہ سرکاری فنڈ پر چلنے والے سکول میں پڑھتی ہیں۔

دس سالہ یسر علی خانہ جنگی کے بعد 2016 میں رقہ سے بے گھر ہو کر لبنان پہنچے تھے۔ سرکاری فوج اور دولت اسلامیہ کے جنگجو پہاڑی درے کے راستے پیدل چل کر ان کے علاقے میں پہنچے تھے۔ یسر زندگی کو بہت مشکل قرار دیتے ہیں۔ انہیں شام میں اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔ وہ تیسری جماعت میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انہیں امید ہے وہ پڑھ لکھ کر بزنس مین بنیں گے اور اپنے لیے مکان اور کار خریدیں گے۔

دو سالہ عائشہ شیخ وادی بیکا کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان 2013 میں وہاں منتقل ہوا تھا۔ شام سے ان کی والدہ کو، جن کا نام ملاچی تھا، بچوں کو لے کر اس وقت فرار ہونا پڑا، جب ان کے خاوند کام پر گئے ہوئے تھا۔ عائشہ شیخ کا خاندان صرف کپڑے لے کر گھر سے نکلا اور مہاجر کیمپ پہنچا۔ انہیں چھ برس سے شام میں اپنے رشتے داروں کی کوئی خبر نہیں ہے۔

چھ سالہ حسن الخدر شام کے شہر حلب سے خاندان کے ساتھ 2014 میں لبنان کی وادی بیکا آئے۔ وہ قریبی مکان کے بم کا نشانہ بننے کے بعد خاندان کے ساتھ فرار ہوئے۔ مہاجر کیمپ میں حسن کے بہت سے دوست ہیں۔ ان کی والدہ عائشہ کے مطابق مہاجر کیمپ کی زندگی بے حد مشکل ہے۔ سردیوں میں بارش کے بعد سردی میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ زیادہ بارش سے بستیوں میں سیلاب آ جاتا ہے۔

پانچ سالہ غیدہ جاسم لبنان میں واقع شامی مہاجر کیمپ میں دنیا میں آئیں۔ حلب میں مقیم ان کا خاندان خانہ جنگی سے جان بچا کر غیر قانونی طور لبنان پہنچا تھا۔ لبنان پہنچانے کے لیے سمگلروں کو 400 ڈالر دیئے گئے۔ غیدہ جاسم کے والد ذکریا ایک ریستوران میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔ وہ آلو کی فصل تیار ہونے پر 10 ڈالر کی یومیہ اجرت پر کام کریں گے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شام کی اگلی نسل لبنان کے کسی پناہ گزین کیمپ میں اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھی ڈاکٹر، استاد، وکیل، پائلٹ اور بیلے ڈانسر بننے کے خواب دیکھنے والی ہوگی، جسے عالمی رہنماؤں کے وعدے پورے ہونے کا انتظار ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی