جاپان کا فیکس مشین سے رومانس اب بھی جاری

دنیا بھر میں فیکس مشینیں دفاتر کے گوداموں میں پھینکی جا رہی ہیں لیکن جاپان میں یہ اب بھی مقبول ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟

جاپان کی پہلی فیکس مشین ایف ایکس 51 اے، جسے جاپان کی الیکٹرانکس کمپنی این ای سی نے 1946 میں تیار کیا تھا، ٹوکیو میں جاپان کے مواصلاتی عجائب گھر میں پڑی ہے (اے ایف پی)

دنیا بھر میں فیکس مشینیں دفاتر کے گوداموں میں پھینکی جا رہی ہیں لیکن جاپان میں، جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کے لیے شہرت رکھتا ہے، یہ اب بھی مقبول ہیں۔

دنیا کے تیز ترین انٹرنیٹ بینڈوڈتھ والے ملک کے تاجر اب بھی کہتے ہیں کہ فیکس مشین (فیکس) ایک اہم کاروباری آلہ ہے۔

 کچھ مہینے پہلے کرونا وبا کی وجہ سے انتظامی اصلاحات کے لیے جاپانی کابینہ نے اعلان کیا کہ اس نے دفاتر میں فیکس مشینوں کے استعمال کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فیکس مشین کے لیے جاپان کی پہلی اور اہم سرمایہ کاری 1936 میں برلن اولمپکس کے موقعے پر کی گئی تھی۔

جاپان کو ایونٹ کی تصاویر بھیجنے کے لیے ٹوکیو اور برلن کے درمیان ٹیلی فون نیٹ ورک قائم کیا گیا۔

جیسا کہ جاپان جنگ کے بعد معاشی ترقی کی چوٹی پر چڑھ گیا، سونی کے سی ای او اکیو موریتا اور جاپانی وزیر ٹرانسپورٹ شنتاری اشیہارا نے ایک منشور جاری کیا۔

1989 میں شائع ہونے والی دستاویز میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا کی سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین نئی ٹیکنالوجی کی تیاری میں ’جاپانی عوام پر انحصار کرتے تھے۔‘

اس کی اہم مثال ملک میں سیمی کنڈکٹر چپس سب سے زیادہ پیداوار تھی۔

موریتا اور اشیہارا کے لیے اس نے ’گوروں کی تیار کردہ جدیدیت کا خاتمہ‘ کیا اور جاپانی ٹیکنالوجی میں ایک ’نئے دور‘ کا آغاز کیا لیکن اس کے بعد سے طویل عرصہ گزر چکا ہے اور صورت حال پہلے جیسی نہیں۔

ہائی ٹیک جاپان کی وہ تصویر دھندلا رہی ہے۔ پیناسونک اور متسوبشی، تیز رفتار ٹرینوں اور نیون سٹی لائف کا گھر ہونے کے باوجود جاپان ڈیجیٹلائزیشن کی عالمی دوڑ میں پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

لیکن فیکس کے استعمال کی ایک اور وجہ ہے۔ جاپان میں لوگوں کے پاس اس ٹول کو استعمال کرنے کی دوسری وجوہات ہیں جن کی ٹیکنالوجی ٹیلی فون سے بھی پرانی ہے۔

بیسویں صدی کی ٹیکنالوجی اب بھی بہت سے جاپانی دفاتر میں رکی ہوئی ہے، جہاں ذاتی مہر والی دستاویزات پر اصرار اب بھی موجود ہے۔

لیکن یہ پوچھنے کی بجائے کہ جاپانی کاروبار شور مچانے والی فیکس مشینوں کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں، ہمیں خود سے پوچھنا پڑ سکتا ہے کہ ہمیں یہ اتنا حیران کن کیوں لگتا ہے؟

نسخاجات کی ثقافت جاپان میں مضبوط جڑیں رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر نوکری کی زیادہ تر درخواستیں اب بھی ہاتھ سے لکھی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ جاپانی آجروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی شخصیات کے بارے میں ان کی تحریر کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اچھی لکھائی ہو۔ خطاطی ایک سب سے عام کلاس ہے جس میں والدین اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں، اور بہت سے بالغ اپنی تحریر کو بہتر بنانے کے لیے ٹیوٹر کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

جاپان میں پرنٹ کا بھی جنون ہے۔ لوگ حقیقی دستاویزات رکھنا پسند کرتے ہیں، ڈیجیٹل کاپیاں نہیں۔

ایک اور وجہ بھی ہے کہ جاپان کیوں ای میل کے دور میں فیکس مشینوں کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔

جاپان ایک ایسا ملک ہے جو جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہے لیکن اپنے تمام شہریوں کے لیے نہیں۔

آبادی کا پانچواں حصہ 65 سال سے زیادہ عمر کا ہے۔ فیکس کا استعمال بڑی عمر کے شہریوں کا ایک طرح سے احترام ہے جو کمپیوٹر یا سمارٹ فون استعمال نہیں کر سکتے۔

جاپان میں  بعض جنرل سٹور اب بھی فیکس اور ٹیلی فون کے ذریعے آرڈر وصول کرتے ہیں۔

بہت سے گاہک، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، اب بھی پیغام پہنچانے کے لیے فیکس کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ آسان ہے اور بٹن دبانے سے کیا جا سکتا ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہیں یقین ہے کہ کسی کو ان کی طرف سے قطار میں وجود رکھنے والا خط موصول ہوا ہے۔

جاپانی شناخت بدل گئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کا خواب طویل عرصے سے جاپان کی قومی شناخت کو اس کے ایشیائی اور مغربی پڑوسیوں کے نسبت ’جدید‘ ملک کے طور پر متعین کرنے کے لیے بنیادی رہا ہے۔

یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جب اکیو اور شنٹارو نے 1989 میں جاپان کے عروج کی بات کی تو انہوں نے اسے ’گوروں کی تیار کردہ جدیدیت کا خاتمہ‘ کہا۔

جاپان امریکی بھاپ سے چلنے والی کشتیاں دیکھ کر جدید بین الاقوامی نظام میں داخل ہوا۔

حقیقت کا تلخ ذائقہ

یہ قومی تصور اس بات کی تصویر کہ جاپان کو حکومتی اور صنعتی سطح پر کیا بننا چاہیے یا بن سکتا ہے، 1980 کی دہائی میں جاپان کی تکنیکی ترقی کے ذریعے جاری رہا۔

بس تب سے فیکس مشین اپنے عروج کے دن سے گزر رہی ہے لیکن بعد از جنگ کا بلبلہ بالآخر پھٹ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1990 کی ’گمشدہ دہائی‘ کے دوران جاپانی معیشت کساد بازاری سے متاثر ہوئی اور پھر دیوالیہ ہو گئی۔ آبادی کی عمر، صنفی عدم مساوات اور آمدنی روزانہ اخبارات کی شہ سرخیوں کا موضوع بن گئیں۔

اس نقطہ نظر سے سست ڈیجیٹلائزیشن صرف عوامی عدم اطمینان کے اشاروں میں سے ایک ہے جس نے معاشی ترقی کے خاتمے کے بعد سے ملک کو گھیر رکھا ہے۔

بہرحال یہاں تک کہ تصور اور حقیقت کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے، جاپان کا ہائی ٹیک امیج مقبول تخیل کا لازمی جزو اب بھی ہے۔

جاپان کے فیکس مشین کے ساتھ رومانوی تعلقات پر نظر ڈالنے سے ہمیں ایسے تاثر سے مختلف دکھائی دیتا ہے جو جاپان کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سرشار بتاتی ہے۔

ایک ایسے ملک کے طور پر جس میں ہاتھ سے لکھی ہوئی دستاویزات کا کلچر، جمالیات کی اہمیت اور بڑھتی ہوئی ہاتھ کی تحریر، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمیں اپنےگوداموں سے گندی فیکس مشینیں نکال کر انہیں پیغام رسانی کے لیے دوبارہ مفید آلے کے طور پر استعمال کرنا کوئی زیادہ برا نہیں ہوگا۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہمیشہ جدید ترین نہیں رہتی۔


نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی