خیبرپختونخوا: ’عمر رسیدہ‘ مسجد مہابت خان کو سہارے کی ضرورت

مسجد مہابت خان کو 1982 میں محکمہ اوقاف کے حوالے کیا گیا تھا،اور اب انتالیس سال بعد دوبارہ محکمہ اوقاف سے واپس لے کر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کیا جارہا ہے۔

تقریباً 400 سال پرانی مسجد مہابت خان مختلف ادوار میں حملہ آوروں اور قدرتی آفات کا نشانہ بنی ہے(تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے اندرون شہر کی ٹیڑھی میڑھی گلی سے گزرتے ہوئے جیسے ہی ایک خوبصورت اونچی مینار اور قدیم ڈیزائن کے گنبد ودیوار نظر آجائیں، تو سمجھ لیں کہ یہ پشاور کی قدیم تاریخی مسجد مہابت خان ہے۔

یہ مسجد اندر سے جتنی خوبصورت ہے اتنا ہی باہر سے جاذب نظر اور مسحورکن ہے۔ یہ دل افروز نظارہ دیکھتے ہی بیچ بازار میں سیاح تصاویر کھینچنا شروع کرلیتے ہیں۔

سناروں کی اس گلی کے باسیوں کو معلوم ہے کہ مسجد مہابت خان زمانہ قدیم سے سیاحوں کے لیے کافی کشش رکھتی آئی ہے اور اس کی تصاویر ملکی و غیرملکی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے آپ مرد ہوں یا عورت، مسجد مہابت خان کے باہر گلی میں آپ کو ایک سازگار ماحول ملے گا۔ عین ممکن ہے راہگیر یا دکاندار  خندہ پیشانی سے بغیر آپ کی گزارش کے، خود کو تصویر کے لیے پیش کر دیں۔

تقریباً چار سو سالہ پرانی مسجد مہابت خان مختلف ادوار میں حملہ آوروں اور قدرتی آفات کا نشانہ بنی ہے لیکن اس کی آب وتاب اب بھی باقی ہے۔ عمررسیدہ ہونے اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے اب اس کے منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔

مسجد کو درپیش خطرات کے بعد محکمہ آرکیالوجی نے خیبر پختونخوا حکومت کو بہت پہلے ہی خبردار کرتے ہوئے اس کے بعض حصوں پر پچھلے ایک سال سے کام شروع کیاہے لیکن محکمہ اوقاف کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے محکمہ آرکیالوجی مسجد کو پوری طرح محفوظ رکھنے سے قاصر تھا۔ بالآخر رواں ہفتے صوبائی حکومت نے ایک اہم پیش قدمی کرتے ہوئے مسجد مہابت خان کو محکمہ آرکیالوجی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

محکمہ آرکیالوجی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسجد کے گردوپیش میں چھیالیس دکانیں اور ایک پلازہ بننے کی وجہ سے نہ صرف مسجد کی بنیادوں کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی خوبصورتی بھی ماند پڑ گئی ہے۔

محکمہ آرکیالوجی کے موجودہ ڈائریکٹر عبدالصمد نے بتایا کہ یہ دکانیں محکمہ اوقاف نے لیز پر دی ہوئی تھیں تاہم مالکان نے حکومت کی توجہ میں لائے بغیر تجاوزات کیں، یہ جانے بغیر کہ اس سے مسجد کی بنیادیں کمزور پڑ رہی ہیں۔

’اب ہم ان چھیالیس دکانوں کو واپس اپنی جگہ پر لے کر  جائیں گے۔ مسجد کو اطراف کے گند سے صاف کریں گے۔ مغل دور کی خوبصورت نقاشی کو محفوظ بنائیں گے۔ اس وقت کوشش یہ ہے کہ بنیادوں کو مضبوط بنایاجائےتاکہ نہ صرف قیمتی اثاثہ بچایا جاسکے بلکہ کوئی جانی نقصان بھی نہ ہو۔‘

ڈاکٹر عبدالصمد نے بتایا کہ حکومت نے بروقت مسجد کو بچانے کا فیصلہ کیا ہے، ورنہ خدشہ تھا کہ کوئی حادثہ ہوجاتا اور پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا حکومت کو ملکی و عالمی سطح پر انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔

مسجد مہابت خان کا تاریخی پس منظر

صوبہ خیبر پختونخوا اور افغانستان کی تاریخ کے موضوع پر گہری نظر رکھنے والے محمد ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسجد مہابت خان کی تعمیر کی اصل تاریخ کے حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن موجودہ مسجد سترھویں صدی، 1630 اور 1670 کے وسط میں مغل شہنشاہ شاہجہان کے گورنر نواب مہابت خان نے تعمیر کروائی تھی جو کہ ایرانی النسب کے تھے اور جن کے والد علی مردان خان مغل دور حکومت میں ہندوستان آئے تھے اور یہاں آرکیٹیکچر کے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس زمانے میں  پشاور ایک والڈ سٹی تھی ، جس جگہ مسجد مہابت خان تعمیر کی گئی ہے ،تجارت کا مرکز بھی یہی تھا۔اس کی خوبصورتی اس کے لکڑی کے کام میں تھی جسے کشمیر ۔ ملتان اور ہندوستان کے دور دراز سے آنے والے ہنرمندوں نے مہارت سے بنایا تھا۔ دیواروں پر اسلامی طرز کی نقاشی کے ڈیزائن ہاتھ سے بنائے گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’بدبختی سے اس مسجد میں مغل دور کے دوران آگ بھڑک اٹھی جس سے تمام لکڑی کا کام زیر آتش آگیا۔ بعدازاں سکھ دور میں جب گورنر ہری سنگھ نلوا جمرود کے مقام پر پشتونوں کے مقابلے میں قتل ہوئے تو انتقام کے طور پر قلعہ بالا حصار اور مسجد مہابت خان دونوں کو گہرا نقصان پہنچایا۔ سکھ بےحرمتی کے لیے مسجد کے دالان میں گدھوں اور خچروں کو بھی باندھتے رہے یہاں تک کہ سکھوں کے جانشین گورنر اویٹابیلے نے مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اور اکثر عبرت کے طور پر مجرموں کو لٹکایا بھی جاتا تھا۔‘

’یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ مسجد مہابت خان کی شکستہ حالت کا زیادہ ذمہ دار سکھ دور حکومت رہا ہے۔‘ جب  کہ رہی سہی کسر 2015 میں7.5 ریکٹر سکیل زلزلے کی وجہ سے اس کا ایک مینار منہدم ہوگیا تھا۔

مسجد مہابت خان کو 1982 میں محکمہ اوقاف کے حوالے کیا گیا تھا،اور اب انتالیس سال بعد دوبارہ محکمہ اوقاف سے واپس لے کر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کیا جارہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین