بابری مسجد گرا کر درجنوں مساجد بنانے والے 'بلبیر سنگھ' کون تھے؟

محمد عامر نے محمد رحمان کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ بابری مسجد کے گنبد پر چڑھنے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے اور ہتھوڑا بھی چلایا۔

محمد عامر کی موت بظاہر حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے جبکہ پولیس تھانہ کنچن باغ نے ان کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں (تصویر ممبئی مرر)

چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی انہدامی کارروائی میں سرگرمی سے حصہ لینے کے بعد اسلام قبول کرنے والے ’بلبیر سنگھ‘ کا حیدرآباد دکن کے علاقے حافظ بابا نگر میں انتقال ہو گیا ہے۔

بابری مسجد کے انہدام کے محض ایک سال بعد یعنی 1993 میں اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی بلبیر  سنگھ نے اپنا نام بدل کر محمد عامر رکھا تھا اور اپنے فعل کے کفارہ کے طور پر 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم کیا تھا۔

حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے روزنامہ 'سیاست' کے مطابق محمد عامر کے اہل خانہ پڑوسی ریاست کرناٹک گئے ہوئے تھے اور جمعرات کو جب وہ واپس لوٹے تو انہوں نے خاندان کے سرپرست کو مکان میں مردہ پایا۔

محمد عامر کی موت بظاہر حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ہے جبکہ پولیس تھانہ کنچن باغ نے ان کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ محمد عامر نے 1993 میں اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں مولانا کلیم صدیقی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد سے انہوں نے مساجد کی تعمیر کے لیے سرگرمی سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

’سال 1994 میں انہوں نے ہریانہ میں مسجد مدینہ کے نام سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔‘

محمد عامر دو دہائی قبل ہریانہ سے حیدرآباد دکن منتقل ہوئے تھے اور یہاں پرانے شہر کے حافظ بابا نگر میں مقیم تھے۔

محمد عامر کا آبائی علاقہ ریاست ہریانہ کا پانی پت تھا۔ ان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہریانہ کی روہتک یونیورسٹی سے تین مضامین تاریخ، سیاسیات اور انگریزی میں ماسٹرز ڈگریاں حاصل کی تھیں۔

محمد عامر بچپن میں ہی سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مقامی شاکھا سے وابستہ ہو گئے تھے اور پھر شیو سینا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

مساجد کی تعمیر کی مہم کے تحت محمد عامر نے 2019 میں بابری مسجد کے انہدام کی برسی کے موقع پر حیدرآباد کے علاقے بالاپور میں مسجد رحیمیہ کے نام سے 59 ویں مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز کیا تھا۔

حافظ بابا نگر کے ایک رہائشی سعادت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 100 مساجد تعمیر کرنے کا عزم رکھنے والے محمد عامر خود کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔

’محمد عامر میرے دوست کے بہنوئی تھے۔ وہ پہلے تالاب کٹہ کے علاقے میں رہتے تھے جہاں ان کا بیشتر وقت مسجد حضرت قبلہ میں گزرتا تھا۔‘

سعادت علی کے مطابق ’وہ حال ہی میں حافظ بابا نگر منتقل ہوئے تھے جہاں وہ بالاپور روڑ پر ایک مسجد تعمیر کروا رہے تھے۔ اُن کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے وہ میں نہیں جانتا۔ اتنا جانتا ہوں کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔‘

حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد رحمان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمد عامر نے انہیں 2019 میں ایک انٹرویو دیا تھا۔

’محمد عامر قریب دو دہائی قبل حیدرآباد آئے تھے اور یہیں پر شادی کی تھی۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔‘

محمد عامر نے محمد رحمان کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ بابری مسجد کے گنبد پر چڑھنے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے اور ہتھوڑا بھی چلایا تھا۔

'انہوں نے بتایا کہ میرا برین واش کیا گیا تھا اور مجھے اپنے فعل کا عمر بھر پچھتاوا رہے گا۔'

محمد عامر کا محمد رحمان کو انٹرویو

’بابا مسجد کے انہدام کے بعد میری طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تھی۔ جب تمام تجربے ناکام ہوئے تو کچھ لوگوں نے مجھے روحانی علاج کے لیے کسی مسلمان عالم کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔‘

میں ہر طرح کا علاج آزما کر تھک چکا تھا۔ میرا سکون ختم ہو چکا تھا اور میری نیند اڑ چکی تھی۔ خود کو ہر وقت بے چین محسوس کرتا تھا۔‘

بالآخر مولانا کلیم صدیقی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان سے ملنے کا واحد مقصد دعا اور تعویز حاصل کرنا تھا لیکن مولانا کے مخلصانہ طرز عمل دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ملاقات کے بعد میری صحت بھی ٹھیک ہونے لگی۔ جیسے جیسے میری صحت میں سدھار آیا میں اسلام کے قریب آتا گیا اور بالآخر اسلام قبول کر لیا۔ مذہب بدلنے کے بعد کافی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے کافی ہراساں بھی کیا۔‘

بابری مسجد کی شہادت کا دن پوری دنیا کے لیے ایک سیاہ دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے کروڑوں لوگوں کے جذبات کو مجروح اور قانون کو چیلنج کیا۔‘

محمد عامر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’مسجد کے انہدام کی کارروائی ایک سیاسی کارروائی تھی۔ اس کو انجام دینے کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا