بابری مسجد کیس: تمام 32 ملزمان کی بریت پر پاکستان کی مذمت

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ بھارت میں بی جی پی اور آر ایس ایس کی حکومت عالمی اصولوں اور انصاف کے معیارات پر یقین نہیں رکھتی۔

بابری مسجد کو منہدم کرنے کا واقعہ چھ دسمبر 1992 میں پیش آیا تھا (اے ایف پی)

پاکستان نے بھارت میں 1992 میں بابری مسجد منہدم کرنے میں ملوث افراد کو بری کیے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔

لکھنو کی ایک خصوصی عدالت نے بدھ کو بابری مسجد کے انہدام کے کیس میں تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ بری ہونے والوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی شامل ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ سے اس پیش رفت کے بعد جاری بیان میں کہا کہ بابری مسجد کے انہدام  سے قبل رتھ یاترا کو ٹی وی پر دکھایا گیا تھا اور اس میں بی جی پی اور وشوا ہندو پریشد کی قیادت شامل تھی۔ بیان کے مطابق ہندوتوا سے متاثرہ بھارتی عدالت انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے میں ایک بار پھر ناکام ہو گئی ہے۔

بابری مسجد کے انہدام کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں ہزاروں افراد کی ہلاکت واقع ہوئی تھی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ بھارت میں بی جی پی اور آر ایس ایس کی حکومت بین الااقوامی اصولوں اور انصاف کے معیارات پر یقین نہیں رکھتی۔

بیان کے مطابق بھارتی عدلیہ اس سے قبل بھی اسی قسم کے غلط فیصلے کرتی رہی ہے جب میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی شامل ہے اور آج بابری مسجد پر حملے میں ملوث افراد کو بھی بری کر دیا گیا۔

'بی جی پی آر ایس ایس کی حکومت بھارت کو ایک ہندو راشٹرا بنانے کی راہ پر گامزن ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں کو سی اے اے اور آین آر سی جیسے امتیازی قوانین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیر میں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کا مسلم مخالف ایجنڈا بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔'

پاکستان نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ان کے مذہبی مقامات کا تحفظ کرے۔

بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ اپنے فیصلے میں جج سریندر کمار یادو کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کو گرایا جانا کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا، اس لیے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ انہدام بابری مسجد کا واقعہ 28 سال قبل چھ دسمبر 1992 کو پیش آیا تھا جس کے بعد سی بی آئی نے مختلف فرقوں میں نفرت پھیلانے، مجرمانہ سازش، فساد برپا کرنے، اشتعال انگیزی جیسے الزامات پر مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سی بی آئی آڈیو اور ویڈیو کی صداقت ثابت نہیں کر سکی۔

ان 32 نامزد ملزمان میں سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق یونین منسٹر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ بھی شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سی بی آئی نے عدالت میں 351 گواہاں اور چھ دستاویزات پیش کیں، جبکہ 48 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی تاہم طویل عدالتی کارروائی کے دوران ہی ان افراد میں سے 16 انتقال کر گئے تھے۔

واضح ہے کہ بابری مسجد کے حوالے سے عدالت میں دو مقدمات  زیر سماعت تھے۔

گذشتہ سال نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیہ میں بابری مسجد اور رام مندر کے طویل عرصے تک چلنے والے آثارِ قدیمہ کے تنازعے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین مرکزی حکومت کے حوالے کرکے وہاں مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو ایودھیہ میں متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 1992 میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ مگر مسمار مسجد کی پوری زمین (2.77 ایکڑ) ایک ہندو گروہ کے حوالے کر کے ایودھیہ ہی میں پانچ ایکڑ اراضی کا ایک متبادل پلاٹ مسلم گروہ کو فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا