کیا پاکستان کو غیر پیشہ ور سفیروں کی ضرورت ہے؟

صورتحال ہے کہ آپ کو 25 سال سے زیادہ سروس پر بھی سفیر کی پوسٹ نہیں مل پاتی ہے اور بہت سے افسر تقریبا 35 سال کی سروس میں صرف ایک ہی سفیر کی پوسٹ حاصل کر پاتے ہیں۔

وزارت خارجہ کی اسلام آباد میں عمارت۔ (وزارت خارجہ)

جب کسی پیشہ ور سفارت کار کو سفیر کی اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں تو اس کے پیچھے تقریبا 25 سال کی متحرک سفارت کاری ہوتی ہے۔ اس سفارت کار نے عموماً چار سے پانچ سفارت خانوں میں اور وزارت خارجہ میں مختلف شعبوں میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں مختلف حکومتی محکموں کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر قومی مقاصد کو حاصل کرنے کا تجربہ بھی شامل ہوتا ہے۔

اس دوران پیشہ ور سفارت کار مختلف مشکل اور سخت تربیتی مراحل سے بھی گزرتا ہے۔ اس میں ایک غیرملکی زبان سیکھنے کی مہارت بھی شامل ہوتی ہے جو اسے سفیر کی اہم ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس سارے سفر میں حکومت نے ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے۔ سفیر کی بے تحاشا ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو کہ پیچیدہ، اہم اور کبھی کبھی انتہائی نازک بھی ہوتی ہیں۔ ان کو احسن طریقے سے پورا کرنے میں سالوں کی تربیت اور سفارت کاری کا وسیع تجربہ درکار ہوتا ہے۔ ان پیچیدہ اور اہم ذمہ داریوں کی کسی ناتجربہ کار سے امید کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے اور نہ اس قسم کی تعیناتیاں قومی مفادات کا بہتر دفاع کر سکتی ہیں۔ یہ تاثر کہ سفارت کاری صرف پارٹیوں میں شرکت کرنا اور عشائیے دینے کے نام ہے محض خام خیالی ہے۔

غیر پیشہ ورانہ سفیروں کی نامزدگی عموماً ترقی پذیر ملکوں میں عام ہے جہاں ادارے کمزور ہوتے ہیں اور شخصی بالادستی کی بنا پر حکمرانوں کے چہیتوں کو نوازنے کے لیے سفارت ایک آلے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ کچھ ترقی پذیر ملکوں میں، جن میں بھارت شامل ہے غیر پیشہ ورانہ سفیروں کی تعیناتی بہت کم ہے کیونکہ وہاں ادارے مضبوط ہیں۔ امریکہ میں اداروں کی مضبوطی کے باوجود کافی غیر پیشہ ور سفیروں کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ یہ عموماً ایک سیاسی سرپرستی ہوتی ہے اور چونکہ روایتی طور پر امریکی صدر کو اختیار ہے کہ وہ اپنے حامیوں اور مالی امداد دینے والوں کو حکومت میں مختلف جگہوں پر تعینات کر سکتا ہے۔ یہ لوگ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ محکمہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکی وزارت خارجہ میں غیر پیشہ ور سفیروں کی تعیناتی کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ اس کے خلاف امریکی وزارت خارجہ کے افسروں کی ایسوسی ایشن اکثر احتجاج کرتی رہتی ہے۔ ایسوسی ایشن کے عہدے داران باقاعدگی سے اس مشق کے خلاف اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں آفیسرز ایسوسی ایشن مضبوط ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں غیر پیشہ ور سفیروں کی تعداد بہت کم ہے۔ 

ہمارے ہاں غیر پیشہ ور سفیروں کا تناسب بہت زیادہ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اداروں کی کمزوری اور سفیروں کی تعیناتی میں سول اور فوجی قیادت کی مسلسل مداخلت رہی ہے۔ ایک وقت میں تقریبا 40 فیصد سے زیادہ غیر پیشہ ور سفیر مختلف سفارت خانوں میں تعینات کیے جاتے رہے ہیں جن کی تعداد میں نواز حکومت 1997 اور 1999 کے درمیان کمی کر کے 20 فیصد پر لے آئی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کچھ عرصے بعد اس روایت کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ یہ 20 فیصد کا کوٹہ ابھی تک قائم ہے تاہم مشرف دور میں کبھی کبھی یہ تعیناتیاں 20 فیصد سے بھی تجاوز کر جاتی تھیں۔

 وزیرخارجہ نے پچھلے ہفتے کچھ نئے سفیروں کی تعیناتی کا اعلان کیا اس میں تقریبا یہی کوٹہ برقرار رکھتے ہوئے دو میجر جنرلوں کو بھی سفیر لگایا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے روایات سے ہٹتے ہوئے ان تعیناتیوں کا ایک ویڈیو میسیج میں اعلان کیا اور تقریباً ہر سفیر کی تعیناتی کی وجہ بیان کی مگر یہ نہیں بتایا کہ ان ریٹائرڈ جنرل میں کیا خصوصیت  تھی جن کی وجہ سے سے ان کی برونائی اور بوسنیا میں تعیناتی ضروری سمجھی گئی۔

یہ بھی نہیں بتایا جا سکا کہ کیا وزارت خارجہ میں ان جگہوں پر جانے کے لیے مناسب یا قابل افسر دستیاب نہیں تھے۔

سفیر ایک اہم قومی ذمہ داری نبھانے کے لیے تعینات  کیے جاتے ہیں نہ کہ حکومتی خرچے پر من پسند افراد کو چھٹی پر بھیجا جاتا ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کبھی کسی صحافی، سیاستدان، استاد، بینک کار، تاجر، ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور مسلح افواج کے افسروں کو سفارتی عہدوں سے نوازا گیا ہے۔ یہ لوگ یقینا اپنے شعبے میں بہت محترم ہوں گے لیکن دیکھا گیا ہے کہ سفارت کاری کے میدان میں ان کی صلاحیتیں ہمیشہ کمزور رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 کچھ غیر معمولی غیر پیشہ ور سفیروں نے سفارت کاری کے میدان میں اپنا سکہ جمایا ہے مگر ان کے پیچھے کچھ نہ کچھ سفارت کاری کا تجربہ بھی شامل تھا۔ ان نمایاں لوگوں میں صاحبزادہ یعقوب خان اور جمشید مارکر جیسے نامور سفیر شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اگر آپ اس میدان میں نظر ڈالیں تو خال خال کوئی نمایاں غیر پیشہ ور سفارت کار نظر آتا ہے جس نے سفارت کاری کے میدان میں پاکستان کی خدمت کی ہو۔ پچھلی پانچ سے چھ دہائیوں میں جو غیر پیشہ ور سفارت کار تعینات کیے گئے ہیں ان میں بیشتر کے پاس نہ ضروری تجربہ، نہ نظم و ضبط اور نہ ہی دانشورانہ پس منظر شامل تھا۔ ایسے سفیروں کی تعیناتی سے بیرون ملک پاکستان کا چہرہ مجروح ہوتا رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ وزارت خارجہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو بھی متاثر کرتا رہا ہے۔

 غیر پیشہ ور سفیروں کی تعیناتی وزارت خارجہ میں افسروں کے عزم اور حوصلے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اب یہ صورتحال ہے کہ آپ کو 25 سال سے زیادہ سروس پر بھی سفیر کی پوسٹ نہیں مل پاتی اور بہت سے افسر تقریباً 35 سال کی سروس میں صرف ایک ہی سفیر کی پوسٹ حاصل کر پاتے ہیں۔

اس غیر پیشہ ور سلسلے کو بند کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ کسی طرح بھی قومی مفادات کا دفاع نہیں کر پاتا اور ہمارے قیمتی وسائل جو افسروں کی تربیت پر استعمال ہوتے ہیں ان کا احسن استعمال نہیں کر پاتا۔

اگر کچھ وجوہات کی بنا پر غیر پیشہ ور سفیر کی تعیناتی کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو ایسے سفیر کے انتخاب کی ذمہ داری ایک ایسے سے بااثر بورڈ کو دینی چاہیے جو تفصیل سے انٹرویو کرنے کے بعد اور امیدوار کی قابلیت کا جائزہ لینے کے بعد تعیناتی کی سفارش دے۔ اس بورڈ میں سینئر ریٹائرڈ سیکرٹریز خارجہ کو شامل کرنا چاہیے کیونکہ ان سے بہتر کوئی پاکستان کے سفارتی مسائل اور انسانی وسائل کے استعمال کو نہیں سمجھ سکتا۔

وزارت خارجہ کے افسروں کو بھی اپنی ایسوسی ایشن بنانی چاہیے جو ان کے پیشہ وارانہ حقوق کا دفاع کر سکے اور پاکستان کے سفارتی مفادات کو بہتر طریقے سے آگے بڑھانے میں وزارت خارجہ کی مدد کر سکے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر