باغبان: جب سلمان، امیتابھ نے اپنی تقاریر کے لیے سلیم جاوید کو دوبارہ یکجا کیا

امیتابھ بچن کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ کردار دلیپ کمار کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا تھا تواپنے آئیڈل اداکار کی جگہ خود کام کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔

ہدایت کار کو فلم’باغبان‘  کا مرکزی خیال ایک ریٹائرمنٹ ہوم کو دیکھ کر سوجھا تھا (بی آر فلمز)

فلم ’باغبان ‘ کا مرکزی خیال 1960 میں ہدایت کار بی آر چوپڑہ کو ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ایک جوڑے سے ملاقات کے بعد آیا تھا، جن کی داستان سننے کے بعد انہوں نے فلم بنانے کا ارادہ کیا۔

خواہش تھی کہ دلیپ کمار اس تخلیق میں کام کریں۔ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کو جب کہانی سنائی گئی تو انہیں بھی اس میں خاصی کشش نظر آئی۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ ان دنوں کئی فلموں میں کام کر رہے تھے جس کی بنا پر انہوں نے بی آر چوپڑہ کو کہہ دیا کہ جہاں ان کی فلمی مصروفیات کم ہوئیں وہ اس فلم کا یہ کردار ضرور ادا کریں گے۔

اب یہ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ دلیپ کمار، ہدایت کار بی آر چوپڑہ کی ’داستان‘ اور پھر 80 کی دہائی میں ’مزدور‘ میں بھی کام کرتے رہے لیکن جس کردار کے لیے انہیں موزوں ترین سمجھ کر کہانی لکھی جا رہی تھی، اس فلم پر کام ہی شروع نہ ہو سکا۔ دلیپ کمار ایک کے بعد ایک فلموں کی عکس بندی میں مصروف رہتے اور ادھر بی آر چوپڑہ نے بھی قسم کھائی ہوئی تھی کہ اگر یہ فلم بنائیں گے تو صرف اور صرف دلیپ کمار کے ساتھ ہی۔ اس خیال میں یہ سمجھیں کہ 40 سال کا عرصہ بیت گیا۔

یہ 2000 کے اوائل کی بات ہے کہ بی آر چوپڑہ نے دلیپ کمار کو پھر یاد دلایا کہ ان کے لیے مخصوص فلم کا وہ آغاز نہیں کر پائے ہیں لیکن دلیپ کمار کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ فلموں میں مزید کام کریں۔ اسی بنا پر بی آر چوپڑہ نے ہدایت کار بیٹے روی چوپڑہ سے طویل مشاورت کی۔ جنہوں نے صلاح دی کہ اگر دلیپ کمار ناسازی طبیعت کی بنا پر یہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں تو ان کے متبادل کے طور پر بس ایک ہی اداکار یعنی امیتابھ بچن ہی اس کردار میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتے ہیں۔

امیتابھ بچن کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ کردار دلیپ کمار کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا تھا تواپنے آئیڈل اداکار کی جگہ خود کام کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ یوں ہدایت کار روی چوپڑہ نے فلم ’باغبان‘ بنانے کی تیاری کا آغاز کیا۔ داستان تھی ایک ایسے جوڑے کی جو جب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اُس کے سگے بیٹے اور ان کی بیویاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں لفظوں کے تیر مار کر زندگی دوبھر کر دیتے ہیں۔ کوئی بوڑھے والدین کا سہارا بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ والدین کو معمولی معمولی سی ضروریات کے لیے اولاد کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑ جاتا ہے اور ایک مرحلہ یہ بھی آتا ہے کہ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والے اس بوڑھے جوڑے کا اولاد بٹوارہ کر دیتے ہیں۔

امیتابھ بچن کے مقابل پہلے مادھوری اور سری دیوی کو منتخب کرنے کا سوچا گیا لیکن روی چوپڑہ نے سوچ بچار کیا تو دونوں اداکارائیں امیتابھ بچن کے مقابلے پر کم عمر لگیں۔ تب فیصلہ یہ ہوا کہ ہیما مالنی کو پیش کش کی جائے، جنہوں نے فلم ’ناستک‘ کے 20 سال بعد ہنسی خوشی امیتابھ بچن کی ہیروئن بننے پر آمادگی ظاہر کی۔

فلم ’باغبان‘ میں سلمان خان مہمان اداکار کے طور پر جلوہ گر ہو رہے تھے۔ جو یتیم ہوتے ہیں اور جن کی پرورش امیتابھ بچن کرتے ہیں اور جب ہیما مالنی اور امیتابھ بچن دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں تو یہی یتیم لڑکا انہیں سہارہ دیتا ہے۔ کہانی کے مطابق امیتابھ بچن اولاد کے ہاتھوں اپنی ناقدری اور بےحسی کی داستان کو کتاب کی صورت میں لکھ کر پیش کرتے ہیں اور کلائمکس میں انہیں عمر رسیدہ والدین کو بوجھ نہ تصور کرنے کی اور اپنے ساتھ پیش آنے والی درد بھری کہانی پر مبنی جذباتی اور پرجوش تقریر کرنی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیتابھ بچن جانتے تھے کہ اس تقریر کے سہارے پر ہی فلم کھڑی ہے اور اگر یہ جاندار نہ ہوئی تو ’باغبان‘ کا سارا خیال زمین بوس ہوجائے گا۔ گو کہ سکرین پلے کے لیے ستیش بھٹناگر، رام گووند اور شفیق انصاری جیسی ٹیم موجود تھی لیکن امیتابھ بچن کو لگا کہ اس کلائمکس تقریر کو لکھنا ان کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے انہوں نے جاوید اختر سے رابطہ کیا۔ کہانی سنائی اور فرمائش کی کوئی ایسی تقریر لکھیں، جسے سن کر ہی فلم بینوں کی آنکھیں بھیگ جائیں۔ جس کے ٹھوس الفاظ میں پیغام کے ساتھ ساتھ جذباتی پہلو بھی ہو۔ جس کا ایک ایک لفظ ہر اولاد کو مجبور کر دے کہ وہ بوڑھے والدین کو بے سہارا نہ چھوڑے۔

ادھر یہ بات سلمان خان کے علم میں آئی تو وہ یہ جانتے تھے کہ امیتابھ بچن سے پہلے انہیں بھی ایک تاثراتی تقریر کرنی ہے، جس میں وہ یتیم ہونے کے باوجود امیتابھ بچن اور ہیما مالنی کی ہوئی پرورش پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ سلمان خان بھی چاہتے تھے کہ یہ مختصر سی تقریر ایسی متاثر کن ہو کہ جب پردہ سیمیں پر وہ اسے ختم کر کے جائیں سنیما ہال میں تالیاں بجنا شروع ہو جائیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے والد سلیم خان سے رابطہ کیا، جو ابتدا میں یہ تقریر لکھنے پر تیار نہیں ہوئے لیکن جب سلمان خان کا اصرار بڑھا تو انہوں نے بھی کاغذ قلم سنبھالا اور بیٹے کے لیے تقریر لکھنے بیٹھ گئے۔

جب روی چوپڑہ کے پاس دونوں تقریریں پہنچیں تو ان کا دل باغ باغ ہو گیا، ایک ہدایت کار کو کیا چاہیے تھا کہ اس کی فلم کا کلائمکس اس قدر جذباتی اور متاثر کن ہو کہ فلم باکس آفس پر کمال کر جائے۔

یاد رہے کہ جاوید اختر اور سلیم خان کی جوڑی کو بالی وڈ کی تاریخ کے مشہور ترین کہانی کاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ایک کے بعد ایک بلاک بسٹر فلمیں دیں۔

جہاں جاوید اختر امیتابھ بچن کے لیے یہ کام کر رہے تھے، وہیں سلیم خان سلمان خان کے لیے، اور جب روی چوپڑہ کے پاس دونوں تقریریں پہنچیں تو ان کا دل باغ باغ ہو گیا، ایک ہدایت کار کو کیا چاہیے تھا کہ اس کی فلم کا کلائمکس اس قدر جذباتی اور متاثر کن ہو کہ فلم باکس آفس پر کمال کر جائے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سلیم جاوید کی جوڑی جو 1982 میں فلم ’شکتی‘ کے بعد ٹوٹ گئی تھی اور اب غیر اعلانیہ طور پر ’باغبان‘ میں اکٹھی ہوئی ہے۔

روی چوپڑہ اختتامی مناظر کو عکس بند کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ اکتوبر 2003 میں ’باغبان‘ جب سینیما گھروں میں سجی تو اس نے واقعی تہلکہ مچا دیا۔ کلائمیکس میں ہونے والی سلمان خان اور امیتابھ بچن کی تقاریر تو جیسے فلم کا خاصہ بن گئیں لیکن بہت کم کو علم تھا کہ یہ شاہکار جاوید اختر اور سلیم خان نے لکھا ہے، جس میں ایک باپ کی سگی اولاد کے ہاتھوں بے توقیری کا درد اور تکلیف اجاگر کی گئی تو وہیں ایک یتیم لڑکے کی اپنے محسنوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے جذبات کی عکاسی بھی کی گئی۔

ہدایت کار بی آر چوپڑہ کا ایک خواب جو انہوں نے 60 کی دہائی میں دیکھا تھا، وہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ جو کردار دلیپ کمار کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کیا گیا تھا، اس کے ساتھ امیتابھ بچن نے ناانصافی نہیں کی۔

فلم کی نمائش کے بعد اگلے سال ہونے والے فلم فیئر ایوارڈز میں ’باغبان‘ کی چار نامزدگیاں ہوئیں لیکن بدقسمتی سے یہ کوئی ایوارڈ حاصل نہ کر سکی لیکن اس کے باوجود ’باغبان‘ آج بھی ایک کلاسک فلم تسلیم کی جاتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم