دلیپ کمار: جن کے اثر سے بچ نکلنا کسی بالی وڈ ہیرو کے لیے ممکن نہ رہا

دلیپ کمار کی آنکھیں آج ہمیشہ کے لیے بند ضرور ہو گئیں لیکن ان کے لب و لہجے کی جھلک ہر دور کے نئے اداکاروں میں نظر آتی رہے گی۔ دلیپ کمار سے بچ کے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔

دلیپ کمار کا 1946 کا ایک پورٹریٹ (فوٹو: وکی پیڈیا/ فلم انڈیا)

صاحب کوئی کام ملے گا؟

کیسا کام؟

صاحب سنا ہے آپ کو کام کے لیے کوئی نوجوان درکار ہے۔ میں کچھ بھی کر لوں گا، کوئی بھی کام۔

صاحب کا نام ویزلی تھا اور ایک ریستوران کے مالک تھے۔ یہ گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی جسے سن کر ان کی بیوی نے کہا: 'نوجوان انگلش اچھی بولتا ہے اسے کینٹین کے ٹھیکے دار کے پاس بھیج دیجیے۔'

کیا نام ہے تمہارا؟

یوسف۔۔۔۔یوسف خان

ٹھیک ہے کل جا کر ٹھیکے دار سے مل لینا۔ صاحب یہ کہہ کر اپنی بیوی سے باتیں کرنے لگے۔  نوجوان رات بسر کرنے کے لیے ٹھکانہ ڈھونڈنے لگا۔ آنکھوں میں گذشتہ روز کے مناظر اور مستقبل کے اندیشے تیر رہے تھے نیند کہاں سے آتی۔  

یہ پشاور سے بمبئی آ کر بسنے والے لالہ غلام سرور خان کا شرمیلا لڑکا یوسف خان تھا جسے گھر سے بھاگے آج پہلی رات تھی۔ ہوا یہ کہ کل شام جیسے ہی یوسف گھر پہنچا اس کی طلبی ہوئی۔   

باپ کے ماتھے پر بل اور منہ سے آگ برس رہی تھی۔ یوسف کے لب خاموش لیکن دل میں بغاوت کا طوفان امڈ آیا تھا۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گیا۔ کپڑے لیے اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ بمبئی ریلوے سٹیشن پہنچ کر پیسے گنے۔ یہ تقریباً 40 روپے تھے۔ پونہ جانے کے لیے تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا اور انجانی منزل کی جانب رواں ہو گیا۔

 ایک ریستوران میں کینٹین مینیجر کے اسسٹنٹ سے کام شروع کرنے والا یوسف خان جب بمبئی لوٹا تو اس کی جیب میں پانچ ہزار روپے اور دل میں بے پناہ اعتماد تھا۔

پونہ میں کام ٹھپ ہوا تو بمبئی میں تگ و دو کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک دن کسی کام کے سلسلے میں دادر جانے کے لیے یوسف بمبئی کے چرچ گیٹ ریلوے سٹیشن پر کھڑا تھا کہ ایک جانی پہچانی صورت نظر آئی۔ نوجوان نے بڑھ کر سلام کیا۔ وہ مشہور نفسیات دان ڈاکٹر مسانی تھے جو ایک بار ان کے کالج میں لیکچر دینے آئے تھے۔ ڈاکٹر مسانی نے پوچھا: 'یوسف آج کل کیا کر رہے ہو؟' 'نوکری کی تلاش،‘ دلیپ نے کہا۔

ڈاکٹر مسانی انہیں ساتھ لے کر پہلے سے طے شدہ ملاقات پر بمبئی ٹاکیز چلے گئے۔ وہاں دیویکا رانی اور مشہور ڈائریکٹر امیا چکرورتھی موجود تھے۔ دیویکا رانی نے پوچھا، ’آپ کی اردو کیسی ہے؟‘ نوجوان سے پہلے ڈاکٹر مسانی نے تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔  دیویکا رانی اور نوجوان کے درمیان مختصر مکالمہ ہوا۔

کیا آپ اداکار بنیں گے؟ ہمارے سٹوڈیو کی تنخواہ 1250 روپے ہے۔

مگر اداکاری میں میرا تجربہ صفر ہے۔

تو ابھی آپ کیا کر رہے ہیں؟

پھلوں کا کاروبار کرنے کی کوشش۔

اس میں کتنا تجربہ ہے؟

صفر۔ لیکن محنت کروں گا تو تجربہ ہو جائے گا۔

یہی محنت اداکاری میں کرلو!

کچھ پس و پیش کے بعد یوسف خان نے یہ آفر قبول کرلی اور فلم کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔

بمبئی ٹاکیز میں ان دنوں اشوک کمار کی فلم 'قسمت' بن رہی تھی۔  یوسف روزانہ صبح جاتا اور دن بھر شوٹنگ دیکھ کر شام کو لوٹ آتا۔  دو مہینے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن دیویکا رانی نے بلا کر کہا: 'یوسف وقت آ گیا ہے کہ تمہیں متعارف کروا دیا جائے لیکن اس سے پہلے ایک سکرین نام رکھ لو جو ذرا رومانوی قسم کا ہو۔ میرے خیال میں دلیپ کمار عمدہ رہے گا۔'

چند روز میں دلیپ کمار کی پہلی فلم 'جوار بھاٹا' کی شوٹنگ شروع ہوئی۔ 1944 میں یہ فلم سینیما گھروں میں لگی اور گودام پہنچ گئی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اگلے سال فلم 'پریتما' کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اس کے بعد 'ملن' اور 'جگنو'  کسی حد تک کامیاب ہوئیں لیکن بات نہیں بن سکی۔ 

انہی دنوں ایک بار دلیپ کمار کرکٹ سٹیڈیم پہنچے تو دو شخص ان کی طرف دیکھتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ یہ ملے تو پتہ چلا ایک موسیقار نوشاد علی اور دوسرے  پروڈیوسر ڈائریکٹر محبوب خان ہیں۔ نوشاد نے دلیپ کمار کو ملاقات کی دعوت دی۔ اگلے دن پروڈیوسر ڈائریکٹر یو ایس سنی کے دفتر میں ان کی ملاقات ہوئی اور دلیپ صاحب کے سامنے 'میلہ' فلم کی کہانی رکھی  گئی۔ 'میلہ' سے دلیپ کمار اور نوشاد کی طویل رفاقت کا آغاز ہوا، جنہوں نے اگلے 20 برس میں 14 فلمیں ایک ساتھ کیں۔  

بمبئی کی فلم نگری میں اس وقت راج کپور اور نرگس کے رومانوی تعلقات کی دھوم مچی تھی۔ 'برسات' اور 'انداز' میں دونوں کے انداز پس پردہ محبت کی برسات کا پتہ دیتے تھے، لیکن 1951کی فلم 'ترانہ' سے بھارت میں رومانس کے نئے دور کی بنا پڑی۔ روشن خد و خال کے دیوتا دلیپ کمار اور حسن کی دیوی مدھوبالا نے جیسے چھلکتا ہوا رومانس پردے پر اتارا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ انل بسواس کی مدھر دھنیں اور ڈی این مدھوک کے دلفریب مکالمے پوری فضا کو مسحور کن بنا دیتے ہیں۔ اسی فلم سے دلیپ کمار اور مدھوبالا کی محبت کا آغاز ہوا جو ناکامی کے بعد دیومالائی شکل اختیار کر گئی اور آج تک اس کا ذکر برابر سننے کو ملتا ہے۔ 

اس کے بعد 'داغ، سنگدل، آن اور امر' جیسی فلموں میں دلیپ کمار کا فن مزید پختہ ہوا اور باکس آفس پر کامیابی کا گراف بلند ہوتا گیا۔ اسی دوران بمل رائے نے کلکتہ سے بمبئی کا رخ کیا اور اپنی پہلی ہی فلم 'دو بیگھہ زمین' سے پوری انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا۔ سنجیدہ موضوعات پر مبنی ان کی فلمیں ایک طرف نچلے طبقات کو اپنی آواز محسوس ہوئیں تو دوسری طرف ناقدین فنی دسترس پر حیران رہ گئے۔   

بمبئی میں قدم جمانے کے بعد بمل دا نے ایک پرانا سپنا سچ کرنے کی ٹھانی۔ 1936 میں جب پرمتھتیش باروا کے ایل سہگل کو مرکزی کردار میں لے کر 'دیوداس' بنا رہے تھے تو عکس بندی کی ذمہ داری نوجوان بمل رائے نبھا رہے تھے۔ بمل رائے نے اس وقت اپنا من بنا لیا کہ کبھی موقع ملا تو میں یہ فلم خود ضرور بناؤں گا۔ وہ دلیپ کمار سے ملے اور مرکزی کردار کی پیشکش کی۔ ایسا لگتا ہے دلیپ کمار کی پہلے والی تمام فلمیں اس عظیم پرفارمنس کی تیاری تھیں۔ 

دیوداس (1955) میں بمل رائے کی ہدایت کاری اور دلیپ کمار کی اداکاری کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن باکس آفس پر فلم ناکام ہو گئی۔ ہندوستان میں فلم کی کامیابی کا بڑا انحصار فلم کی موسیقی پر ہوتا ہے۔ دیوداس کے گیت شائقین کے دل نہ چھو سکے۔ دیوداس سے دلیپ کمار 'ٹریجڈی کنگ' بنے۔ تین سال بعد دلیپ کمار اور بمل رائے کی مدھومتی(1958) ریلیز ہوئی تو اس نے صرف دل ہی نہیں فلم فیئر ایوارڈز بھی جیتے۔ یہ پہلی فلم تھی جس نے آواگون کے موضوع کو ہاتھ لگایا اور اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا۔ دلیپ کمار کے ڈبل رول کو خوب سراہا گیا۔

بی آر چوپڑا کی 'نیا دور'، یو ایس سنی کی 'کوہ نور' اس دہائی کی دیگر دو اہم فلمیں ہیں۔ 50 کی دہائی کو دلیپ کمار کے فن کا نقطہ عروج کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

دیوداس کا دیو بابو، مغل اعظم کا شہزادہ سلیم 1961 کی فلم 'گنگا جمنا' میں ایک اینٹی ہیرو کے کردار میں فن کی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اپنی لکھی کہانی دلیپ کمار پردے پر ایسے بسر کرتے ہیں جیسے واقعی زندگی انہی جنگلوں میں ڈکیتیاں کرتے بتائی ہو۔ پشاور کا پٹھان اتر پردیش کا لہجہ اس اعتماد اور روانی سے بولتا ہے جیسے بچپن انہی گلیوں کی خاک چھانتے گزرا ہو۔

بطور کہانی نویس انہوں نے جاوید سلیم کو متاثر کیا، جنہوں نے 70 کی دہائی میں ایسے کرداروں کی بھرمار کر دی۔ بطور اداکار انہوں نے امیتابھ بچن کے لیے بنیاد رکھی جو اینگری ینگ مین کے روپ میں نئی نسل کی آواز بن گئے۔ کیا اس موضوع پر اس سے بہتر کہانی لکھی گئی؟ کیا دلیپ کمار جیسا قانون سے منحرف کردار کوئی ایسی مہارت سے پیش کر سکا؟ انڈین سینیما میں بننے والی کسی بھی فلم سے اس کا موازنہ کر لیجیے، جواب آپ کو خود مل جائے گا۔

1960 کے عشرے میں کامیابی کی نسبت ناکامی کے بادل گہرے ہونے لگے۔ 70 کی دہائی راجیش کھنہ کے کرشمے سے شروع ہو کر امیتابھ بچن کے اینگری ینگ مین کے روپ میں آگے بڑھنے لگے۔ سدا بہار دیو آنند اور جادوئی موسیقار ایس ڈی برمن کے علاوہ پرانی نسل کی سانسیں پھولنے لگیں۔ 1976 میں دلیپ کمار نے فلم سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

پانچ برس بعد کرانتی (1981) سے کریکٹر ایکٹر کی صورت میں نئے دلیپ کمار کا جنم ہوا، لیکن ایسا لگتا ہے یہ ابھی سپیدی نمودار ہوئی تھی سورج نہیں۔

ایک دن بمبئی کے اخبار فروش چیخ چیخ کر اعلان کر رہے تھے کہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن، ایک ساتھ ایک فلم میں۔ پرانی نسل دلیپ کمار کو دیوتا کہتی، نئی نسل کا خون کھولنے لگتا اور جواب دیتی، ’لمبو کچا کھا جائے گا۔‘ 

'گنگا جمنا' کا باغی اب ایک ایماندار پولیس افسر تھا اور 'شعلے' کا جے قانون شکن بیٹا۔ 'شکتی' میں دونوں اداکاروں نے زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ سینیما سے نکلتے ہوئے کچا کھا جانی والی نسل کا لہجہ بدلا ہوتا، دیوتا کے پرستاروں کا سینہ مزید چوڑا ہو گیا۔

'مشعل، کرما اور سوداگر' میں بطور کریکٹر ایکٹر دلیپ کمار نے اپنا لوہا منوایا۔  'مشعل' میں ایک جگہ وحیدہ رحمٰن سڑک کنارے مرتی ہیں اور دلیپ کمار بے بسی کے عالم میں مدد کے لیے پکارے چلے جاتے ہیں۔ منظر ایسا کہ کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ دلیپ کمار انسانی بے بسی کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں۔

ہندی سینیما کی تاریخ میں دلیپ  کمار کے اثرات کسی بھی دوسرے اداکار کی نسبت زیادہ گہرے اور ہمہ گیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس وقت انہوں نے فلموں کا رخ کیا ان کے سامنے کوئی ماڈل نہیں تھا۔ اداکار کیمرے کے سامنے کھڑا ہو جاتا اور ہدایت کار جیسے کہتا اسے دہرا دیتا۔ زیادہ تر اداکار تھیئٹر سے آتے جہاں تربیت ہی اونچی آواز میں بولنے کی ہوتی۔ بالی وڈ میں دلیپ کمار پہلے اداکار تھے جنہوں نے مکالمے کی ادائیگی اور صوتی زیر و بم کو فن کا درجہ دیا۔ بالخصوص المیہ کرداروں میں ان کی آواز دکھ کی شدت سے ایسی بھیگی ہوتی ہے کہ ناظرین اپنی سماعتوں میں اس کی نمی محسوس کرنے لگتے۔ اگر پردے پر تصویر گردش نہ بھی کر رہی ہو تو دلیپ کمار کی آواز کی مدد سے ہوبہو تصویر تشکیل دی جا سکتی ہے۔ دیوداس کے بعد ہر نوجوان اسی لہجے میں بات کرتا، ہر شخص کو دیوداس میں اپنا عکس نظر آتا۔

یہی نہیں انہوں نے خاموشی اور مکالموں کے درمیان وقفے کو بھی اداکاری کا ایک سنہرا باب بنا دیا۔ ایک فلم کے سین میں انہیں ماں کہتی ہے: 'بیٹا کھانا کھا لو۔'  انہیں انکار کرنا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر لکھا ہوا جملہ دیتا ہے: 'نہیں، میرا دل نہیں کر رہا۔' دلیپ کمار نے کہا یہ سطر اضافی ہے۔ جب انہیں ماں کھانے کا بولتی ہیں تو وہ ایک نظر ماں پر ڈالتے ہیں اور منہ پھیر کر اپنے کمرے میں چل پڑتے ہیں۔ ان کے ہونٹ خاموش لیکن چہرہ ابلاغ کی بلندی پر ہوتا ہے۔ یہی دلیپ کمار کا کمال ہے کہ وہ مکالمے کے بغیر پوری شدت سے اپنے باطن کی کشمکش چہرے کی بدلتی رنگت اور آنکھوں کی تیز، مدہم ہوتی روشنی سے دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں۔

ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں اگر لتا یا دلیپ کمار نہ ہوتے تو بہت بڑا خلا رہ جاتا۔ لتا کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں بہت مختلف اور باکمال موسیقار ملے جن کے ساتھ بہترین شاعر بطور نغمہ نگار تھے۔ اس معاملے میں دلیپ کمار اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔

دلیپ کمار جتنے بڑے فنکار تھے بالی وڈ فلموں میں اتنا عمدہ مواد نہیں ملتا۔ اکثر و بیشتر کہانیاں عامیانہ سطح کی اور تکنیکی اعتبار سے بے ہنگم اور فارمولا فلمیں ہیں۔ انڈین سینیما کی تاریخ کا سب سے افسوس ناک واقعہ ستیہ جیت رے اور دلیپ کمار کا ایک ساتھ کام نہ کرنا ہے۔ دلیپ کمار کو نسبتاً بنگالی ہدایت کاروں نے عمدگی سے استعمال کیا ہے بالخصوص بمل رائے نے، لیکن ستیہ جیت اور دلیپ کی جوڑی یقیناً کچھ ایسا کر دکھاتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

 50 کی دہائی میں ہالی وڈ کے معروف ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے انہیں لارنس آف عریبیا میں ایک نہایت عمدہ کردار کی پیشکش کی لیکن دلیپ کمار نے معذرت کر لی۔ یہ کردار بعد میں عمر شریف نے لافانی بنا دیا۔ 

 فلم کی دنیا کے معروف مصنف اور باکمال گیت نگار جاوید اختر کا اصرار ہے کہ میتھڈ ایکٹنگ کے پہلے باقاعدہ اداکار دلیپ کمار تھے۔ مغربی دنیا میں مارلن برانڈو کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے، جن کی فلم 'اے سٹریٹ کار نیم ڈیزائر' 1951 میں آئی۔ اس سے پہلے دلیپ صاحب کی تقریباً 18 فلمیں آ چکی تھیں اور وہ فلم اداکاری کی نئی گریمر وضع کر چکے تھے۔ ستیہ جیت رے نے انہیں 'میتھڈ ایکٹنگ کا حرف آخر'  کہا تھا۔

خیر مغربی دنیا سے کیسا شکوہ خود ہندوستان کا ریاستی رویہ بھی کوئی قابل رشک نہیں رہا۔ دلیپ کمار نے آٹھ فلم فیئر ایوارڈ ضرور اپنے نام کیے لیکن انہیں بھارت رتن نہ ملنا ایک سوالیہ نشان ہے، یہ الگ بات کہ دلیپ کمار کے سامنے بھارت رتن بہت معمولی چیز نظر آتی ہے۔ کیا اس سے بھی کوئی بڑا ایوارڈ ہو سکتا ہے کہ دھرمیندر ، منوج کمار، امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، عامر خان اور منوج باج پائی تک اداکاروں کی ایک بھی نسل ایسی نہیں رہی جس پر دلیپ صاحب کے اثرات نہ ہوں۔

دلیپ صاحب کی آنکھیں آج ہمیشہ کے لیے بند ضرور ہو گئیں لیکن ان کے لب و لہجے کی جھلک ہر دور کے نئے اداکاروں میں نظر آتی رہی گی۔ دلیپ کمار سے بچ کے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم