دلیپ کمار صاحب حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے

یہ جاگتی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے آپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، بند آنکھوں کے خواب تو ہمیشہ وہیں رہتے ہیں جہاں بارش کی ایک بوند پڑتے ہی مٹی خوشبوئیں لٹانا شروع ہو جاتی تھی۔

(اے ایف پی)

آپ جس گھر میں پیدا ہوتے ہیں اسی گھر کے خواب ساری عمر دیکھتے رہتے ہیں۔

وہ چاہے تین مرلے کا ہو اور بعد میں آپ دس کنال کی جگہ مل کر بیٹھ جائیں، خواب میں آپ پھر بھی تین مرلے والے غریب رہتے ہیں۔

آپ کے خوابوں کو پیلی دیوار، کالے کائی زدہ پرنالے، کئی بار پینٹ ہوئے لکڑی کے دروازے، اینٹوں کے صحن، خالی سیمنٹ کے پلستر والے برآمدے اور کمروں میں پڑی جھلنگا چارپائیوں سے عشق ہوتا ہے۔

ڈبل بیڈ پر اچھلتے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے آپ کو یاد آتا ہے کہ چارپائیوں کی کان سیدھی کرنے کے لیے کیسے جینوئنلی چھلانگیں مارنا پڑتی تھیں، پائنتی پہ بیٹھنا کیسا آرٹ ہوتا تھا اور موٹے بان کی رگڑ کتنی سکون بخش ہوتی تھی۔

آپ گھی والے پراٹھے اور رات کے سالن کی جگہ صبح سویرے ایک سوکھا ڈبل روٹی کا سلائس اور ابلا ہوا انڈہ کھا تو سکتے ہیں لیکن معدے سے زیادہ آپ کی انگلیاں ان پراٹھوں کو توڑنے کے لیے بے چین ہوتی ہیں، یہ بھی کبھی کبھی خواب ہی بتلاتا ہے۔

دھوپ میں بیٹھے بیٹھے جتنی دیر آپ ہرے چنے کھاتے تھے یا ابلے ہوئے مٹروں کے نمکین اور نرم چھلکے، اتنی دیر میں آپ کی فلائیٹ ایک ملک سے دوسرے پہنچا دیتی ہے، لیکن وہ نمکین مٹر؟ وہ ہرے چنے؟

پوری دنیا میں سولنگ ہوا کرتی تھی، اینٹوں کی بنی ہوئی گلیاں، محلے، تارکول کی سڑک بنتے دیکھنا ایک تماشا ہوا کرتا تھا، اب گھروں کے فرش تارکول کے بننا رہ گئے ہیں پھر گھروں کے اندر بھی گرمیوں میں فرش سے بھاپیں اٹھا کریں گی چاہے انڈہ فرائی کر لو۔ یاد ہے اینٹوں والی گلی میں آپ جون جولائی بھی ننگے پاؤں چل سکتے تھے، اس سڑک پہ چلیں ہاں ذرا۔۔۔

سارے گھر میں ایک آئینہ ہوتا تھا، کسی جہیز کی سنگھار میز میں ٹنگا، سائیڈوں سے روغن اترا ہوا، بے رنگ، بے جان، کبھی صاف نہ ہو سکنے والا، مگر چہرے سب کے لشکیں مارتے تھے۔ ابھی اپنی شکل دیکھے بغیر لاڈلوں کی حاجت قضا نہیں ہوتی ہے لیکن چہرے، ہائے ہائے، سو بار بھی دھو لیں تو وہ معصومیت کدھر سے لائیں!

یہ جاگتی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے آپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، بند آنکھوں کے خواب تو ہمیشہ وہیں رہتے ہیں جہاں بارش کی ایک بوند پڑتے ہی مٹی خوشبوئیں لٹانا شروع ہو جاتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جاگتی آنکھوں کے خوابوں پیچھے ٹیڑھے میڑھے ناموں والے پھیکے چینی کھانے نگلنے پڑتے ہیں، منہ سے بڑا برگر ایک مہذب چک مار کے چبانا پڑتا ہے، سوتی آنکھوں میں وہی پانچ روپے کے پکوڑے اور پتلی پانی جیسی دہی کی چٹنی اچھل رہی ہوتی ہے۔

بچوں کے ساتھ ہزاروں روپے کی آئس کریم کھاتے ہوئے بابے اس وقت ہنس پڑتے ہیں جب تیلے والا برف کا گولا اپنے ٹپکتے ہوئے رس کے ساتھ یاد آتا ہے، وہ ان گولوں کو اتنا رو چکے ہوتے ہیں کہ اب بس وہ ہنس ہی دیتے ہیں۔

جاگتی آنکھوں کو آنے والے کل کی فکر ہوتی ہے، سوتی آنکھیں رہتی ہی گزرے ہوئے کل میں ہیں۔ سوتی آنکھیں خواب دیکھتی ہی کب ہیں، خواب تو جاگتی آنکھیں دیکھتی ہیں! مہنگے خواب، لالچی خواب، گھناؤنے خواب، بے درد خواب، سفاک خواب، تمہارے خواب، ہمارے خواب اور شاید سارے خواب۔

تو بس ایسے ہی دلیپ کمار نے بھی خواب دیکھے تھے۔ کون ہو گا جو اتنا کامیاب ہو؟ لیکن کون ہو گا جو اتنا مجبور بھی ہو؟ کیا ہے، دو تین گھنٹے کی فلائیٹ؟ ساری زندگی میں ایک بار آ سکے پشاور، دیکھ لیا وہ گھر جہاں بچپن گزارا تھا، جس کے خواب آتے تھے، بس پھر چلے گئے۔ آج بھی پاکستان بھر میں کہیں اس مکان کی بات ہو کوئی ویڈیو پیکج چلے، کوئی خبر ہو، ان تک پہنچ جاتی ہے۔

عرفان شہود نے ایک نظم کہی، میں نے پڑھ دی، شیراز بھائی نے ری ٹویٹ کی اور وہ دلیپ کمار تک جا پہنچی۔ وہ نظم میرے دل کے قریب اس لیے تھی کہ جو پشاور دلیپ کمار کا ہے وہی پشاور میرے بچپن کا بھی ہے۔ امی پشاور کی تھیں اور محلہ بھی وہی خداداد، کوچہ بھی وہی رسالدار، وہی قصہ خوانی، وہی کٹھا، وہی سبز لکڑی کے بستوں والی کھڑکیاں جنہیں گرمیوں میں اٹھا لیں تو پورا گھر صحن اور سردیوں میں گرا دیں تو پورا گھر حمام بن جاتا تھا۔ وہ سب کچھ میں نے دیکھا ہے جو شاید دلیپ کمار آج بھی مس کرتے ہوں گے۔

ان گلیوں کی ایک اپنی الگ مہک ہے۔ وہ بس تبھی شروع ہوتی ہے جب آپ تھوڑا اندر محلوں تک آتے ہیں۔ کسی چھوٹی سی گلی میں بنے چھ کرسیوں والے قہوہ خانے میں بیٹھتے ہیں، کسی کریانے والے سے کروت لے کے کھاتے ہیں، کسی تندور سے روغنی پکڑ کے ملائی والے کے پاس بیٹھ کر اسے ناشتے میں نوش جان فرماتے ہیں، بے مقصد گھومتے ہیں، چہرے دیکھتے ہیں، تب شاید وہ مہک غیر محسوس طریقے سے آپ کے اندر ہمیشہ کے لیے بس جاتی ہے۔

تو وہ نظم یہ تھی۔

دلیپ کمار کی آخری خواہش

لے چلو دوستو،

لے چلو قِصہ خوانی کے بازار میں

اس محلّے خدا داد کی اک شکستہ گلی کے مُقفّل مکاں میں

کہ مدت سے ویراں کنویں کی زمیں چاٹتی پیاس کو دیکھ کر اپنی تشنہ لبی بھول جاؤں

غُٹر غُوں کی آواز ڈربوں سے آتی ہوئی سُن کے

کوٹھے پہ جاؤں، کبوتر اُڑاؤں

کسی باغ سے خشک میووں کی سوغات لے کر صدائیں لگاؤں

زبانوں کے روغن کو زیتون کے ذائقے سے ملاؤں

 گلی کے اسی تخت پر نرم کرنوں سے چہرے پہ سرخی سجاؤں

کہ یاروں کی ان ٹولیوں میں نئی داستانیں سناؤں

انہی پان دانوں سے لالی چراؤں

مجھے ان پرانی سی راہوں میں پھر لے چلو دوستو

ہاں! مجھے لے چلو اس بسنتی، دُلاری، مدھو کی گلی میں

کہ خوابوں کی وہ روشنی آج بھی میری آنکھوں میں آباد ہے

میرے کانوں میں اس کے ترنم کی گھنٹی

صحیفوں کی صورت اتاری گئی ہے

سبھی کو بلاؤ کہ نغمہ سرائی کا یہ مرحلہ آخری ہے

بلاؤ مرے راج کو

آخری شب ہے

پھر سے حسینوں کے جھرمٹ میں بس آخری گھونٹ پی کے

 فنا گھاٹیوں میں

مَیں یوں پھیل جاؤں کہ واپس نہ آؤں

سُنو دوستو و و و و و و

ہوا یہ کہ جس وقت نظم پڑھی اس وقت مجھے بخار تھا۔ میں خود تو محسوس کر رہا تھا کہ میں پڑھ کیا رہا ہوں لیکن کسی بھی ریکارڈنگ میں سامنے والے کے لیے فیلنگ نہیں آ رہی تھی۔ فیل لانے کے لیے آٹھ دس ری ٹیک کیے، پھر جب کمر تختہ ہو گئی اور کام بنتا نظر نہیں آیا تو بس جو نسبتا اچھی ریکارڈنگ تھی وہ چلا دی۔ کم چکیا گیا۔
شیراز اردو نیوز میں ہوتے ہیں، لاہور، راولپنڈی، پشاور ہر شہر کے اندرون پہ ان کی خاص نظر ہے، کئی مرتبہ روح کھچویں تصویریں انہی علاقوں کی شئیر کرتے ہیں، اس حوالے سے ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی کافی فعال ہے۔ تو میں نے ویڈیو ٹوئٹر پہ چڑھائی اور انہیں ٹیگ کر دیا، دلیپ کمار بھی ساتھ میں ٹیگ تھے۔

ان کا والا ٹیگ کام کر گیا۔ شیراز نے ری شئیر کر دی، ان کی مہربانی ۔۔۔ دو تین دن بعد وہی ویڈیو دلیپ کمار صاحب کے اکاؤنٹ سے ری ٹوئٹ ہو چکی تھی، یا خدا!

سوشل میڈیا بھی کیسے رلتے کھلتوں کو محل چڑھا دیتا ہے، صاحب کی مہربانیاں ہیں!

تو اسی ٹویٹ میں دلیپ کمار صاحب کی جانب سے فرمائش کی گئی کہ اس نظم کا انگریزی ترجمہ بھی جلد از جلد شئیر کیا جائے۔ عاصمہ خان کی مہربانی کہ وہ انہوں نے کر دیا۔ لیجیے دلیپ کمار صاحب، نظم حاضر ہے انگریزی میں، آپ کے اور میرے پشاور کی!

 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ