امریکی کیمپ: فوجی غُرفہ اور افغان بچے

جن کے بچے اتنے خوداعتماد ہیں، ان کے والدین کیسے بےروزگار رہ سکتے ہیں۔ یہ دریا کی طرح امریکہ کے سمندروں میں ضم ہو جائیں گے۔

افغانوں کے اس کیمپ میں وہ کھڑکی جہاں سے بچوں کو کھانے پینے کی اشیا ملتی ہیں (تصویر: ثروت نجیب)

بچوں کا پیٹ خدا اور والدین ہی بھر سکتے ہیں، کوئی دوسرا لاکھ ان کے نخرے اٹھائے مگر ان کو خوش کرنا آسان نہیں۔

کیمپ میں بچوں کے لیے ایک کینٹین ہے جہاں ان کو مفت کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں۔ سارا دن بچوں کی قطار اس کھڑکی کے باہر لگی رہتی ہے۔ لیکن رات گئے بھی بعض بچے اس کھڑکی کے آس پاس منڈلاتے نظر آتے ہیں۔

کینٹین کا ایک مینو ہے جس میں کارن چپس، ایپل، اورنج، بیری جوس، تازہ پھل، بار، بسکٹ، چاکلیٹ چپ کوکیز اور کبھی کبھار کپ کیک بھی ملتے ہیں۔ دوسری کھڑکی میں چائے اور کوک کا انتظام ہے جو صرف بڑوں کو دی جاتی ہے۔

امریکہ میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو کوک خریدنے اور پینے کی اجازت نہیں۔ یہاں بچوں کو چائے بھی نہیں دی جاتی۔ اگر وہ چائے پینے کے خواہش مند ہیں تو انہیں اپنے والدین کو ساتھ لانا پڑتا ہے۔

گرم پانی کے ساتھ سبز یا سیاہ چائے کا ایک ساشے دیا جاتا ہے۔ بچوں کو چینی کی بجائے شہد کا ساشے دیا جاتا ہے البتہ بڑے چاہیں تو چینی لے سکتے ہیں۔

بچوں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ چھپا کر نہیں کھاتے۔ وہ کوئے کی طرح اعلان کرتے ہیں۔ جس دن چپس کی باری ہو بچے چپس کا پیکٹ ہوا میں لہراتے سلیپر کے اندر بیٹھے بچوں کے دروازے کھٹکھٹاتے چپس چپس چپس کے نعرے لگاتے ہیں۔

سلیپرز سے بچے دوڑے دوڑے کینٹین جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچے جب قطار تک پہنچتے ہیں چپس ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کی جگہ کینٹین والی باجی مسکراتے ہوئے بچوں کے ہاتھ میں  کیلا تھما دیتی ہے۔ جسے کچھ بچے تو غنیمت سمجھ کر کھا لیتے ہیں کچھ وہیں پڑے کوڑے دان میں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔

میں کہتی ہوں لیتے ہی کیوں ہو جب کھاتے نہیں ہو۔ یہ رزق کا ضیاع ہے مگر بچے کہاں سنتے ہیں وہ تو وہاں کھڑے فوجی کی پروا بھی نہیں کرتے۔

جب تک وہ پھر کیمپ تک پہنچتے ہیں کوئی اور بچہ پھر سے نعرے لگانے لگاتا ہے واپس آجاؤ، واپس آجاؤ کینٹین میں انگور مل رہے ہیں۔ انگور کا نام سن کر عورتیں بھی نکل پڑتی ہیں۔ جہازی حجم کے موٹے موٹے انگور کے پیکٹ بھی جلد ختم ہو جاتے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد پھر ایک آواز لگتی ہے کوکو (چاکلیٹ) مل رہی ہے جو بچوں کی بھاگم دوڑ شروع دوبارہ شروع کر دیتی ہے۔ بچوں کا ہجوم سلیپرز سے نکل کر کینٹین کی جانب دوڑ رہا ہوتا ہے۔

سارا دن بچوں کا اسی بھاگ دوڑ میں گزر جاتا ہے۔ کچھ سیانے کوئے تو وہیں پہ ڈیرہ ڈالے بیٹھے رہتے ہیں۔ ادھر کھانے پینے کی چیز لی، ایک طرف کھڑے ہو کر کھا لی اور پھر قطار میں لگ گئے۔

اب تو کینٹین والی ٹیم بھی بچوں کے چہرے پہچان گئی ہے کہ ان میں سے دوسروں کا حق کھانے والے بچے کون سے ہیں۔ کچھ ایسے بچے بھی ہیں جو کینٹین والی ٹیم کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر چیزیں بانٹتے ہیں اور مترجم کے فرائض مفت ادا کرتے ہیں۔ گو کہ شروع شروع میں ان بچوں کی اپنی انگریزی اتنی تھی کہ یس اور نو ہی بول سکتے تھے لیکن اب نہ صرف وہ بڑے بڑے جملے بولتے ہیں بلکہ وہ بچوں کی قطار کو میں منظم بھی کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بار بار ایک ہی چیز لینے والے بچوں کو قطار سے باہر نکالتے ہیں اور کھانے پینے کی اشیا کھڑکی سے لے کر ہر بچے کے ہاتھ پہ رکھتے ہیں۔ یہ بچے رضا کار ہیں۔ انہیں کام کر کے خوشی ملتی ہے۔ ان کے چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا رضاکار بچہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔

یہ فارغ وقت میں ساتھ کھڑے فوجی سے گپیں لگاتے ہیں اور اپنے قصے سناتے ہیں۔ میں نے تقریباً دس سالہ رضا کار لڑکے ارشد سے پوچھا تم کھیل کود چھوڑ کر سارا دن یہاں کیوں کھڑے رہتے ہو تو وہ بولا کہ پہلے میں کینٹین آتا تھا تو یہ فوجی سب بچوں کو قطار میں کھڑا ہونے کا کہتا تھا۔ اس کی بات کوئی نہیں سمجھتا تھا، اگر سمجھ جاتے تو مانتے نہیں تھے۔

پھر میں نے اس فوجی کی مدد کرنے کا سوچا۔ میں ان بچوں سے کہتا کہ اگر قطار نہیں بنائی تو کچھ نہیں ملے گا۔ اس طرح یہ بچے ڈر جاتے ہیں اور قطار بنانے لگتے ہیں۔ ارشد نے فوجی کو دیکھتے ہوئے مجھے کہا جو کچھ میں نے تمھیں کہا اسے مت بتانا۔ یہ بےچارہ امریکی ہے اسے نہیں معلوم ہمارے بچے کیسے بات مانتے ہیں اس لیے مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔

میں مسکرائی اور کہا بےفکر رہو۔ مجھے ارشد کی تکنیک نے متاثر کیا۔ اس نے بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے دروغ مصلحت کا سہارا لیا۔ انہیں دیکھ کر مجھے تسلی ہوتی ہے۔ میں جو اکثر سوچتی ہوں کہ یہ بے زباں لوگ یہاں کیسے ایڈجسٹ ہوں گے یہی رضاکار بچے مجھے سیکھاتے ہیں کہ جہاں کنواں ہوتا ہے وہاں راستے بن جاتے ہیں۔

جن کے بچے اتنے خوداعتماد ہیں، ان کے والدین کیسے بےروزگار رہ سکتے ہیں۔ یہ دریا کی طرح امریکہ کے سمندروں میں ضم ہو جائیں گے۔ ان پہ تیسری دنیا کے جنگ زدہ باسیوں کی چھاپ بھی اتر جائے گی۔ یہ منظم ہو جائیں گے اور قانون کی پاسداری سیکھ جائیں۔

سفر یقیناً صعوبتوں سے بھرے ہوتے ہیں مگر منزل ساری تکالیف مندمل کر دیتی ہے۔

تعارف: اس سال اگست میں افغانستان سے ترک وطن کرنے والے ہزاروں افراد میں ثروت نجیب بھی شامل ہیں۔ وہ امریکی کیمپ سے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے خصوصی تحریریں لکھ رہی ہیں۔ اس سلسلے کی یہ تیسری کڑی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ