اسلام آباد میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

وفاقی دارالحکومت میں واقع تقریباً 400 سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا یہ احتجاج گذشتہ مہینے سے جاری ہے جبکہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے۔

اسلام آباد میں واقع تقریباً 400 سرکاری سکولوں کے اساتذہ گذشتہ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسلام آباد میں جمعرات کو سرکاری سکولوں کے ہزاروں اساتذہ نے ڈی چوک کی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کا رخ کیا اور وہاں کئی گھنٹوں تک احتجاج کیا۔

اس احتجاج کا مقصد وفاقی دارالحکومت میں واقع فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) کے تحت چلنے والے سرکاری تعلیمی اداروں کا میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے زیرانتظام کیے جانے کی مخالفت تھا۔  

 ابتدا میں اساتذہ کی بڑی تعداد نیشنل پریس کلب کے سامنے اکٹھی ہوئی، تاہم کچھ نے ریڈ زون میں واقع ڈی چوک پہنچ کر احتجاج کیا، جہاں بعد ازاں پریس کلب کے باہر موجود اساتذہ بھی آ گئے۔

احتجاج کرنے والے اساتذہ نے ڈی چوک پر کانسٹیٹیوشن ایونیو کو جانے والی سڑک پر لگی رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی، اس دوران ان کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ دھکم پیل اور لاٹھی چارج ہوا، تاہم اساتذہ رکاوٹیں ہٹانے میں کامیاب رہے اور کانسٹیٹیوشن ایونیو پہنچ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج کیا۔

بعد ازاں احتجاج کرنے والے اساتذہ کو پرامن طور پر منتشر کرتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی فضل مولا نے تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا: ’حکومت نے ہمارے مطالبے پر توجہ نہ دی تو اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں احتجاج ہوگا اور شہر کو بند کر دیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ اسلام آباد میں واقع تقریباً 400 سرکاری سکولوں کے اساتذہ گذشتہ مہینے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے موسم سرما کی چھٹیوں سے پہلے کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا۔

احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

 پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے گذشتہ مہینے ایک آرڈیننس کے ذریعے وفاقی دارالحکومت میں فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) کے زیر اہتمام چلنے والے تقریباً 400 سکولوں کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیا۔

ان تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور دوسرا عملہ اس حکومتی اقدام کو ’تعلیم دشمن‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔

 چیئرمین جوائنٹ ایکشن کمیٹی فضل مولا کا کہنا تھا کہ وہ کسی صورت تعلیمی اداروں کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہونے نہیں دیں گے اور حکومت کو مذکورہ قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔

انہوں نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 کے سیکشن 166 کو واپس لینے کا مطالبہ کیا، جس کے تحت فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (ایف ڈی ای) کو لوکل گورنمنٹ کے حوالے کر دیا جائے گا اور میئر اسلام آباد ان تمام تعلیمی اداروں کے رپورٹنگ آفیسر ہوں گے۔

جمعرات کے احتجاج میں شامل ایک سینیئر سکول ٹیچر نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت اساتذہ کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کسی صورت اس آرڈیننس کو قبول نہیں کریں گے۔

فضل مولا کا کہنا تھا کہ ان 400 سکولوں پر سالانہ 20 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں، جو ضلعی حکومت کے لیے فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ پورا نہ ہونے کی صورت میں مقامی حکومت ان سکولوں کی نجکاری بھی کر سکتی ہے جو بچوں اور والدین کے ساتھ ظلم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ دنیا میں مقامی حکومتیں مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے وسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں۔

’پاکستان میں تو میئرز اپنے نمائندوں اور اراکین کے لیے ان کا اعزازیہ اور دفاتر حاصل نہیں کر سکتے، اتنے زیادہ سکول کیسے چلا پائیں گے۔‘

حکومت کیا کہتی ہے؟

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات پر وزیراعظم کے مشیر علی نواز اعوان کے مطابق مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے ضلعی حکومت کو تعلیمی اداروں کی صرف نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔

’ان تعلیمی اداروں کے ملازمین وفاقی وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک رہیں گے اور وہی مراعات کے حق دار ہوں گے جو انہیں اس آرڈیننس سے پہلے مل رہے تھے۔‘

ماہ رواں کے پہلے ہفتے میں اساتذہ کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ایک نمائندہ وفد نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں سکول ٹیچرز کے نمائندوں پر اس وقت بند تعلیمی ادارے کھولنے پر زور دیا گیا۔

بعد ازاں کمیٹی نمائندوں کی وفاقی وزارت تعلیم کے سینیئر اہلکاروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، جن میں سکولوں کے نصابی اور غیر نصابی عملوں کی تشویش دور کرنے کی یقین دہانیاں کروائیں گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی وزارت تعلیم نے اس مہینے کے شروع میں اس سلسلے میں ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی، تاہم فضل مولا کا کہنا تھا کہ کمیٹیوں کی طرف سے انہیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ ’ہمیں نہیں معلوم وہ کمیٹیاں کیا کر رہی ہیں اور کس سے مشورہ کر رہی ہیں، ہم سے تو نہیں کر رہی۔‘

حزب اختلاف کی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اساتذہ کے ہر احتجاج میں شرکت کرکے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلاتے رہے ہیں۔

جمعرات کے احتجاج میں پی پی پی کی نفیسہ شاہ نے شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس سے قبل مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، سابق ایم این اے انجم عقیل، پیپلز پارٹی کے رہنما سبط الحسن بخاری، جماعت اسلامی کے میاں اسلم اور دیگر سمیت اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ان احتجاجوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس