اساتذہ کی تنخواہ محض آٹھ ہزار اور وہ بھی سات مہینوں سے بند

پاکستان میں شرح تعلیم بڑھانے کے لیے 24 سال قبل شروع کیے گئے بیکس نظام میں اساتذہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ملک کے چاروں صوبوں سے بیکس کے زیر انتظام پڑھانے والے سینکڑوں اساتذہ نے ڈی چوک اسلام آباد میں کئی دن دھرنا دیا تھا۔(تصویر بشکریہ  آل پاکستان بیکس ایسوسی ایشن)

ڈیرہ غازی خان کے تالپور گاؤں سے تعلق رکھنے والے شاہ نواز پچھلے 12 سال سے گاؤں کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، جس کے عوض انہیں حکومت سے صرف آٹھ ہزار روپے کی تنخواہ ملتی ہے۔

دو کمروں پر مشتمل اس سکول کی عمارت شاہ نواز نے اپنی زمین پر اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہے، جس کے فرنیچر اور دیگر سہولیات و اخراجات کا بیڑہ بھی خود شاہ نواز اور وہاں زیر تعلیم 50 طلبہ کے والدین اٹھا رہے ہیں۔

ملک میں کم شرح خواندگی کے باعث حکومت پاکستان نے ماضی میں اعادہ کیا تھا کہ 2000 تک اس کی شرح 70 فیصد تک بڑھائی جائے گی لہٰذا اس منصوبے کے تحت حکومت کی جانب سے سب سے پہلے 1953 میں ’ویلیج ایڈ پروگرام‘، 1975 میں ’ایڈلٹ فنکشنل لٹریسی پروجیکٹ‘، 1981 میں ’نیٹکام لٹریسی پروگرام‘، 1983 میں ’نیشنل لٹریسی پلان‘ اور اسی طرح کے مزید کئی پروگرام وقتاً فوقتاً متعارف ہوتے رہے۔

اسی سوچ کے تحت 1996 میں پرائمری سطح کی بنیادی تعلیم غیر رسمی خطوط پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کو اس وقت چار ہزار ماہانہ تنخواہ پر نوکریاں دے دی گئیں۔

اس نظام تعلیم کو مختلف وقتوں میں مختلف نام دیے گئے، تاہم موجودہ وقت میں اسے ’بیسیک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز‘ (بیکس) کہا جاتا ہے۔ بیکس کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایک گاؤں میں بیکس کا ایک ہی سکول ہوگا، جہاں بیک وقت 30 سے 35 طالب علموں کا اندراج ہوگا، جنہیں صرف ایک استاد پڑھائے گا۔

خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے شروع کیے گئے اس نظام تعلیم میں اس وقت مسائل پیدا ہوئے جب اساتذہ کو تنخواہیں مہینوں بعد ملنا شروع ہوئیں۔ نتیجتاً 2018 میں ملک کے چاروں صوبوں سے بیکس کے زیر انتظام پڑھانے والے سینکڑوں اساتذہ نے ڈی چوک اسلام آباد میں کئی دن دھرنا دیا۔

شاہ نواز نے بتایا: ’دسمبر 2018 کی سخت سرد راتوں میں ہم نے دوبارہ مجبور ہو کر 11 دن دھرنا دیا۔ اس دوران وفاقی وزرا شہریار آفریدی، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود نے ہم سے وعدے کیے کہ ہماری تنخواہ ریگولر کر دی جائے گی اور اس میں اضافہ بھی کر دیا جائے گا لیکن حال یہ ہے کہ پچھلے سات مہینوں سے ہمیں تنخواہ نہیں ملی جب کہ پچھلے تین سالوں سے بقایاجات بھی نہیں ملے۔‘

پنجاب میں بیکس ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدر یاسمین بھی اسی نظام کے تحت پچھلے 25 سال سے ٹیچنگ کرتی آ رہی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی تنخواہ پچھلے 25 سال میں آٹھ ہزار روپے ہو گئی ہے جو کہ مزدور کے لیے رکھے گئے بنیادی معاوضے ساڑھے 18 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔

’اس پر ستم یہ کہ اب سننے میں آ رہا ہے کہ بیکس کے تقریباً 40 فی صد سکولوں کو ختم کیا جارہا ہے اور اس نظام کو صوبوں کے سپرد کرکے لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کو دیا جا رہا ہے، جہاں ہمیں مزید مسائل کا سامنا ہوگا۔ بیکس میں بہت سی بیوائیں اور غریب خواتین بھی ٹیچرز ہیں، جن کے مالی اخراجات اسی تنخواہ پر چلتے تھے۔‘

کمیونٹی سکولز کے اساتذہ نے مزید بتایا کہ اگر ان کے سکولوں کو بند کروا دیا گیا تو یہ 2011 میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہوگی جس کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے وفاق کو بیکس تاحیات چلانے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پرائمری سطح کے بچوں کو پڑھانے کا یہ مثبت سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کے آرٹیکل 25-اے کی خلاف ورزی ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ باوجود اس حقیقت کے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کے دائرہ کار میں چلی گئی ہے لیکن پھر بھی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ رسمی اور غیر رسمی ہر طرح کے نظام تعلیم کی ترقی و بہتری کو یقینی بنائے۔ بیکس کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ مستقل اساتذہ کے طور پر بھرتی ہوکر اپنی نوکریاں محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح فیڈرل سیکرٹری برائے تعلیم انہیں یقین دلاتے رہے کہ انہیں ریگولر کر دیا جائے گا۔

تاہم 2018 میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کہا کہ اگر غیر رسمی کمیونٹی سکولوں کے اساتذہ کا مسئلہ تنخواہوں کی بندش کا ہے تو وہ معاملہ حل ہو جائے گا جب کہ انہیں مستقل کرنے کے لیے ایک باقاعدہ سروے اور مطالعے کی ضرورت ہوگی۔ بیکس ٹیچر یاسمین نے بتایا کہ ان کی تنخواہوں کا مسئلہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے، لہٰذا کبھی انہیں مہینوں تو کبھی پورا سال تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔

ان اساتذہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے پاکستان کے بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولوں میں تقریباً سات لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں جنہیں 12 ہزار اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان سکولوں کو بند کیا گیا تو نہ صرف اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے بلکہ لاکھوں بچے بھی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔

اساتذہ کے بیانات کے بعد حکومت کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے کئی بار رابطہ کیا اور اساتذہ کا مسئلہ ان کے سامنے رکھا تاہم انہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس