عمارت سے محروم کیچ کا سکول، جہاں سائنس ہی نہیں پڑھائی جاتی

بلوچستان کے ضلع کیچ میں 1993 میں قائم ہونے والے کپکپار پرائمری سکول کو 2003 میں مڈل سکول کا درجہ تو مل گیا مگر آج تک اس کے لیے مناسب عمارت اور اساتذہ کا انتظام نہیں ہو سکا ہے۔ اب مقامی کارکنوں نے تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔

ضلع کیچ کی تحصیل دشت میں واقع یہ سکول اگرچہ ترقی کرکے مڈل سکول کا درجہ تو حاصل کرچکا ہے، لیکن پرائمری سے لے کر اب تک اس کی عمارت نہ بن سکی (تصاویر بشکریہ: بالاچ قادر )

شازیہ کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے کپکپار مڈل سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے چھ سال سال ہوگئے ہیں۔ وہ روزانہ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے آتی ہیں۔ پہلے پہل ان کا سکول ایک کرائے کی عمارت میں واقع تھا لیکن اب انہیں کھلے میدان میں تعلیم حاصل کرنا پڑ رہی ہے۔

بقول شازیہ: ’ہمارا سکول جب پرائمری تھا تو اس وقت صرف ایک چھت تھی۔ بعد میں کرائے کے مکان میں منتقل ہوگیا، جہاں چند کمرے تھے، جو بارشوں میں ٹپکتے تھے۔‘

صرف شازیہ ہی نہیں مڈل سکول کپکپار میں زیر تعلیم پانچ سو کے قریب طلبہ اور طالبات کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

ضلع کیچ کی تحصیل دشت میں واقع یہ سکول اگرچہ ترقی کرکے مڈل سکول کا درجہ تو حاصل کرچکا ہے، لیکن پرائمری سے لے کر اب تک اس کی عمارت نہ بن سکی۔ کچھ عرصہ کرائے کے مکان میں رہنے کے بعد اب وہ بھی مالک نے خالی کروالیا ہے۔

کپکپار کا علاقہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

علاقہ مکینوں کو دو سال قبل اس وقت خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا، جب انہوں نے سنا کہ سکول کی قسمت جاگ گئی ہے اور حکومت بلوچستان نے عمارت کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کردیا ہے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور تاحال تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا۔

زیر تعلیم طلبہ اور طالبات کے ساتھ اساتذہ بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں، خصوصاً سکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالطیف، جو حکام بالا سے باربار ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مڈل سکول کا درجہ تو مل گیا لیکن ان کے پاس صرف تین اساتذہ ہیں۔

عبدالطیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سہولیات کی کمی سے جہاں ہمیں پڑھانے میں مشکل کا سامنا ہے، وہاں طلبہ کا کورس بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ سائنس کے مضامین تو پڑھائے ہی نہیں جاتے کیوں کہ اس کا استاد ہی نہیں ہے۔‘

مڈل سکول کپکپار فی الوقت کھلے آسمان تلے قائم ہے اور وہاں طلبہ اور اساتذہ کو بیت الخلا اور پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

یاد رہے کہ ضلع کیچ کا علاقہ دشت شورش سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں غربت بھی زیادہ ہے اور روزگار کے ذرائع بھی کم ہیں۔

ہیڈ ماسٹر لطیف نے بتایا کہ مڈل سکول کے لیے عمارت کے علاوہ کم از کم نو کمروں اور ہر مضمون کے لیے اساتذہ اور جے وی (جونیئر ورنیکیولر) کے ساتھ معاشرتی علوم اور جنرل سائنس کے اساتذہ کی تعیناتی لازمی ہے۔

انہوں نے کہا: ’مجھے کوئی سمجھائے میں ایک جے وی، ایک پی ٹی ٹیچر (فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر) اور معلم القرآن کے ساتھ مڈل سکول کو کس طرح چلا سکتا ہوں؟ طلبہ اور طالبات میں پڑھنے کا شوق بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ہم انہیں وہ سب کچھ فراہم نہیں کررہے جن کی انہیں ضرورت ہے۔‘

پرائمری سکول کپکپار کا قیام 1993 میں عمل میں لایا گیا اور 2003 میں اسے مڈل سکول کا درجہ دیا گیا۔ سکول کی عمارت کے لیے مقامی لوگوں نے دو ہزار فٹ زمین بھی وقف کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس علاقے کی آبادی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے جو مختلف دیہات پر مشتمل ہے۔ یہاں کوئی گرلز ہائی سکول بھی نہیں ہے۔ یہ واحد مڈل سکول ہے جہاں طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

لطیف نے بتایا کہ انہوں نے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے بار بار رابطہ کرکے مسائل سے آگاہی دلائی اور انہیں سکول کا دورہ بھی کروایا، لیکن انہیں ابھی تک صرف طفل تسلیاں ہی مل رہی ہیں، عملاً کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔

ماہرین تعلیم کا ماننا ہے کہ پرائمری ہو یا مڈل سکول، اس کے لیے عمارت اور کلاس رومز، پانی اور بیت الخلا کی سہولت کا ہونا ناگزیر ہے۔

کوئٹہ کے ایک سینیئر استاد اور ماہر تعلیم کریم بخش نے بتایا کہ حکومت بلوچستان کے معیار کے مطابق کسی بھی جگہ کے پرائمری سکول کے لیے عمارت کے علاوہ عملے کے ساتھ چھ اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مڈل سکول میں چونکہ طلبہ کو پیریڈ کے حساب سے پڑھایا جاتا ہے، اس لیے 15 اساتذہ اور دیگر عملے کا ہونا لازمی ہے۔

دوسری جانب کپکپار تک پہنچنے کے لیے سڑک بھی کچی ہے۔ جس پر ایک گھنٹے کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے۔ علاقے میں صحت کے حوالے سے بھی کوئی سہولت میسر نہیں تو خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود بھی اس سکول کے طالب علم اعلیٰ تعلیم کی جانب جا رہے ہیں۔ وہاں اسی سکول سے پڑھنے والا ایک طالب علم بولان میڈیکل کالج میں بی ڈی ایس (بیچلر آف ڈینٹل سرجری) کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔

شئے حق بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ اس سکول میں پڑھ رہے تھے تو صرف ایک ٹیچر ہوتا تھا اور چند ہی مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’میٹرک تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اصل میں تعلیم ہوتی کیا ہے۔‘

شئے حق کپکپار کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پہلے طالب علموں میں سے ہیں جنہوں نے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کیا، 24 گھنٹے بھی پڑھتے رہے اور ٹیوشن کے ساتھ ان کا اکثر وقت پڑھنے میں گزرتا تھا۔

شئے حق بلوچ کے مطابق: ’ہمارے پسماندہ علاقے کے طالب علم کے لیے کسی بڑے شہر کے یونیورسٹی یا کالج میں تعلیم حاصل کرنا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔‘

 وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو راستے کا علم ہو تو وہ منزل تک پہنچ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے جیسے علاقے کے بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔

شئے جب کرونا کی وبا کے دوران اپنے علاقے میں گئے تو انہوں نے اپنے سکول کے بچوں کو سائنس کے مضامین پڑھائے، جس پر بچوں نے کہا کہ انہیں تو اس مضمون کا علم ہی نہیں تھا۔

شئے حق نے بتایا کہ انہیں کوئٹہ آنے سے قبل تعلیم کے بارے میں اتنا علم نہیں تھا جو یہاں آکر پتہ چلا اور انتھک محنت کے بعد وہ بولان میڈیکل کالج کا انٹری ٹیسٹ پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اپنی مدد آپ!

ادھر حکومت اور عوامی نمائندوں سےمایوسی کے بعد کپکپار کے سماجی کارکنوں نے مڈل سکول کپکپار کی تعمیر کے لیے چندہ مہم شروع کردی ہے۔

بالاچ قادر بھی کپکپار کے رہائشی اور ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ نہ صرف علاقے بلکہ سکول کی حالات زار اور طالب علموں کے مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے تین سال  قبل سکول کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی، لیکن محکمہ تعلیم اعلیٰ حکام اور عوامی نمائندوں سے بات کرنے کے باوجود انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

بالاچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے ہر دروازے پر دستک دے کر دیکھ لیا۔ مایوسی کے بعد ہم نے ازخود عمارت کی تعمیر کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ہمارے علاقے کے پرائمری سکول کی عمارت نہیں بنی اور اسے مڈل کا درجہ بھی مل چکا ہے۔‘

بالاچ نے بتایا کہ مڈل سکول کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے سال 2019 میں صوبائی پی ایس ڈی پی  کے تحت ٹینڈر بھی جاری ہوچکا ہے، لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک منتظر ہیں کہ کب یہاں تعمیر شروع ہوگی۔

بالاچ قادر نے سوشل میڈیا پر فنڈ ریزنگ فارشیلٹر لیس سکول کے نام سے مہم شروع کردی ہے۔ وہ تربت شہر میں اس حوالے سے کیمپ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جب اس مسئلے کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے حکام سے رابط کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اکثر سکول ایسے ہیں جن کو مڈل کا درجہ مل چکا ہے لیکن فنڈز کے مسائل کے باعث ان کی تعمیر نہیں ہو پائی۔

بلوچستان محکمہ تعلیم کے سیکرٹری شیر خان بازئی نے بتایا کہ انہیں کپکپار مڈل سکول کے حوالے سے کوئی علم نہیں تاہم اگر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کیچ کوئی لیٹر جاری کرتے ہیں تو اس پر کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب بالاچ قادر اور ان کے ساتھیوں کو چندہ مہم میں مثبت ردعمل مل رہا ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ سکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے وہ مطلوبہ رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس