پشاور کا ’اجالا سکول‘ جہاں مزدور بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے

ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے چلائے جانے والے ’اجالا سکول‘ میں بچوں کو کتابوں کی جانب راغب کرنے کے لیے کہانیاں سنانے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

پشاور کے ایک سرکاری سکول کی عمارت ہر شام 50 ایسے ضرورت مند بچوں کے لیے درس گاہ بن جاتی ہے جو دن میں والدین کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں یا پھر اپنے غریب خاندانوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھائے سکول جانے سے قاصر ہیں۔

رضاکاروں کی مدد سے چلائے جانے والے اجالا نامی اس سکول کی شروعات ایک غیر سرکاری ادارے کے لیٹرسی پراجیکٹ سے ہوئی تھی جس کا مقصد بچوں میں کتابیں پڑھنے کے رجحان کو پروان چڑھانا تھا۔

ادارے ’ایسوسی ایشن آف بزنس، پروفیشنل اینڈ ایگری کلچرل ویمن‘ کی رضاکار نائلہ ہمایوں بتاتی ہیں: ’2017 میں ہماری تنظیم کو ایک امریکی ادارے نے پانچ سو کے قریب کتابیں دیں۔ یہ بچوں کی کہانیوں کی کتابیں تھیں۔ ہم خواتین نے مل کر یہ سوچا کہ کیوں نہ سرکاری سکولوں اور بےگھر بچوں کے پاس جاکر خود یہ کہانیاں ان کو سنائی جائیں۔‘

نائلہ ہمایوں کا کہنا تھا کہ چونکہ بچوں اور والدین میں کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ نہیں ہے لہذا انہیں تفریح کے مواقع فراہم کرنے اور ان کے علم میں اضافہ کرنے کے غرض سے ارادے کی خواتین اور رضاکاروں نے مل کر بچوں کو کہانیاں سنانے کا پروجیکٹ شروع کیا۔

انہوں نے بتایا: ’اس پروجیکٹ کو بعد میں ہم نے’کتاب دوست‘ کا نام دیا۔ اور اس میں ہر اس شخص کو خوش آمدید کہا گیا جو اپنی مرضی سے کچھ وقت بچوں کے لیے نکال سکتے تھے۔ اس مقصد کی خاطر سب سے پہلے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہم نے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کر لیا، جس کے بعد مختلف سکولوں میں رضاکار  ہفتے میں ایک دن جاکر انہیں کہانیاں پڑھاتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نائلہ ہمایوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے بچوں کا شوق بڑھتا گیا تو بعض سکولوں میں ان کی تنظیم نے لائبریریاں بھی قائم کیں، تاکہ بچے ان کتابوں سے جب چاہیں استفادہ حاصل کر سکیں۔

کتاب دوست پراجیکٹ کے دوران تنظیم کی خواتین نے ایک تجویز یہ بھی دی کہ کیوں نہ سٹریٹ چلڈرن کے لیے کوئی ایسی عمارت حاصل کی جائے جہاں ان کو روزانہ باقاعدہ تعلیم و تربیت ملتی رہے۔

بلاآخر پشاور کے ایک سرکاری سکول کی جانب سے تعاون ملنے کے نتیجے میں سیکنڈ شفٹ میں کلاس لینے کا آغاز کر لیا گیا۔

اس تنظیم کی ایک رضاکار رعنا مدثر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم گلی کوچوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کے پاس گئے اور ان سے بات کرنے کے بعد ان کے والدین سے ملے، جنہوں نے جواب میں بچوں کو سکول بھیجنے کی حامی بھری۔اس سکول کا نام اجالا رکھا گیا۔‘

رعنا مدثر نے مزید بتایا، ’ہم نے کلاس پریپ سے ابتدا کی، ان کو پڑھنا لکھنا سکھایا، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔ نصابی تعلیم کے ساتھ ان کی جسمانی نشونما کے لیے ہم نے انہیں کھیلوں میں بھی ڈالا۔‘

اجالا سکول میں پڑھنے والے بچوں کو کلاس میں لنچ بھی دیا جاتا ہے اور ہر موسم کے مطابق انہیں جوتے اور کپڑے بھی عطیہ کیے جاتے ہیں۔

رعنا مدثر کے مطابق: ’ لنچ کا بندوبست ہم اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ دوست و احباب سے بھی تعاون حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض گھرانے بچوں کی پسند کا کوئی کھانا تیار کر لیتے ہیں،  اس طرح بچوں کا دل لگا رہتا ہے۔‘

سکول کی منتظم خواتین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں انہوں نے پشاور کے ایک تعلیمی ادارے (پشاور ماڈل انسٹی ٹیوٹ) کے ساتھ مل کر ایک ایم او یو پر دستخط کیا ہے ، جس کے تحت اجالا سکول سے ہر سال پانچ بچوں کا انتخاب کرکے انہیں وظیفہ دیا جائے گا، تاکہ وہ آگے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس