’میں بھی سکول جانا چاہتا ہوں مگر بھٹہ مزدوروں کے لیے سکول نہیں‘

کوئٹہ کے 14 سالہ بھٹہ مزدور علی احمد کو پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی خواہش تھی لیکن گھر کے حالات نے دیہاڑی دار مزدور بنا دیا۔

کوئٹہ کے نواح میں واقعہ کچلاک کے اس علاقے میں ہر طرف بھٹے ہی بھٹے ہیں جہاں بڑوں کے ساتھ کم عمر بچے بھی اینٹیں بنانے کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ 

یہاں ان دونوں بہت گرمی ہے اور بڑوں کے ساتھ بچے بھی اینٹیں بنانے کے کام میں جھتے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پورا دن سخت گرمی میں کام کرتے ہیں تاکہ گھر چلتا رہے۔ 

چودہ سالہ علی احمد بھی انہیں مزدوروں میں سے ایک ہیں جن کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک بڑے آدمی بنیں، لیکن حالات نے اسے بھٹے پر کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ 

علی احمد کے بقول: 'ہماری مجبوری ہے کہ یہ کام کریں کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اسی سے ہمارے گھر کا چولہا جلتا ہے۔'

علی احمد کی طرح یہاں پر بہت سے بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جن کا واحد ذریعہ معاش بھی یہی ہے۔ 

علی احمد کے مطابق، انہوں نے پانچویں جماعت تک سکول میں پڑھائی کی ہے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ مزید بھی پڑھتے لیکن گھر کے حالات نے کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھٹہ مزدوری کا کام صبح سویرے شروع ہوکر شام کو ختم ہوتا ہے اور یہاں کام کرنے والے بچے کچھ اور کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود تھکن کے باعث کچھ نہیں کرسکتے۔ 

علی احمد نے بتایا کہ انہیں کھیلوں میں فٹ بال اور کرکٹ کا بہت شوق ہے اور وہ جب سکول میں کھیلتے تو اس سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن یہاں کام کرنے کے بعد وہ کھیلنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ 

علی احمد کے مطابق: 'یہاں ہم صبح سے کام شروع کرتے ہیں  اور دوپہر تک کام کرتے ہیں۔ پھر کچھ وقت کے لیے کام بند ہو جاتا ہے اور پھر شام کو دوبارہ کام پر آجاتے ہیں۔ اتنے زیادہ کام کے باعث ہم تھکن سے چور ہوجاتے ہیں۔' 

بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے والدین بھی سمجھتے ہیں کہ تعلیم  بچوں کی ضرورت ہے لیکن گھر کے حالات کے باعث وہ اور ان کے بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ 

علی احمد نہ صرف خود کام کرتے ہیں بلکہ ان کے والد اور دیگر بہن بھائی بھی اینٹیں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کے باعث گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہے اور اس لیے سب گھر والوں کو یہاں کام کرنا پڑتا ہے۔ 

یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو روزانہ آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک مزدوری دی جاتی ہے۔

گوکہ مزدوری کرنے والے بچوں کے والدین کو بھی ان کے خواہشات کا علم ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہاں سکول نہ ہونے اور وسائل نہ ہونے کے باعث وہ ان کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان