سانحہ آرمی پبلک سکول میں جان کی بازی ہارنے والے اساتذہ

16دسمبر، 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں جان سے جانے والے اساتذہ کی زندگی پر ایک نظر۔

  بچے 16 دسمبر، 2016 کو آرمی پبلک سکول پر حملے کی دوسری برسی کے موقعے  پر جان سے جانے والو ں کو  خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شمعیں روشن کر رہے ہیں ( اے ایف پی)

16 دسمبر، 2014 کو پشاور کے ورسک روڈ پر آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں دہشت گرد عقبی دیوار سے داخل ہوئے اور انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔

یہ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ اساتذہ اور کالج سٹاف سمیت 150 کے قریب طلبہ جان کی بازی ہار گئے۔

اس سانحے میں آرمی میڈیکل کور کے دو جوان اور لانس نائیک الطاف بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جو بچوں کی جان بچانے کی غرض سے سکول میں داخل ہوئے تھے۔

اس ساںحے میں استاتذہ اور طالب علموں سمیت ننھی خولہ بھی نشانہ بنی، جو مونیٹسری میں داخلہ لینے آئی تھی اور جس کی عمر صرف چار سال تھی۔

آج اس سانحے کو سات سال مکمل ہو گئے ہیں لیکن اس دن کی ہولناکی آج بھی دلوں پر نقش ہے۔ لواحقین آج بھی نوحہ کناں ہیں اور انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔

مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی راہ تک رہی ہیں۔ ان کے آنسو خشک نہیں ہوئے اور وہ انصاف مانگ رہی ہیں۔

اسی طرح وہ بچے جنہوں نے اپنے والدین اس سانحے میں کھوئے وہ یتیمی کا کرب سہہ رہے ہیں۔

حملے میں جان سے جانے والے چند اساتذہ کی زندگی پر ذیل میں نظر ڈالی جا رہی ہے۔

پرنسپل طاہرہ قاضی

طاہرہ قاضی اے پی ایس ورسک روڈ سکول و کالج کی پرنسپل تھیں۔ وہ ہمیشہ سکول میں سب سے پہلے داخل ہوتیں اور سب سے آخر میں جاتیں۔

حملے کے روز بھی ان کا جسد خاکی سب سے آخر میں ملا۔ دہشت گرد ان کی نعش کے اردگرد بارودی مواد نصب کر گئے تھے۔

یکم جولائی، 1951 کو مردان میں پیدا ہونے والی طاہرہ قاضی نے پشاور یونیورسٹی سے ایم انگلش کیا اور اے پی ایس کے ساتھ منسلک ہوگئیں۔

24 اکتوبر، 1980 کو وہ ایک آرمی آفیسر لیفٹیننٹ کرنل قاضی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

1994 میں وہ اے پی ایس ورسک روڈ میں تعینات ہوئیں اور اپنی وفات تک وہیں پڑھایا۔

ٹیچر سے لیکچرر، پھر اسسٹنٹ پروفیسر سے وائس پرنسپل بنیں اور 2006 سے وہ اے پی ایس کی پرنسپل کے عہدے پر فائز تھیں۔

ان کے بچوں احمد اور عارفہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا ایک بیٹا سپیشل چائلڈ ہے۔

ان کے خاندان کے لیے یہ بہت بڑا غم تھا جب احمد قاضی کی شادی کے دن ان کے والد لیفٹیننٹ کرنل قاضی دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔ طاہرہ قاضی اور کرنل قاضی دونوں ساتھ مدفون ہیں۔

اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم

پرنسپل طاہرہ قاضی کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر شہناز نعیم سب سے سینیئر تھیں۔ وہ اور طاہرہ قاضی دوست اور پرانی ساتھی تھیں۔

شہناز نعیم 1995 سے اے پی ایس کے ساتھ منسلک تھیں۔ انہوں نے کمپیوٹر سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور آرمی پبلک سکول و کالج ورسک روڈ میں وہ طالب علموں کو کمپیوٹر کا مضمون پڑھاتی تھیں۔

1995 میں وہ سرجن نعیم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

ان کے جانے کے بعد ان کے بچوں نے بہت ہمت اور بہادری سے اپنی تعلیم جاری رکھی اور ڈاکٹر نعیم نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنے پیشے سے بھی خوب انصاف کیا۔

لیکچرار محمد سعید

 لیکچرار محمد سعید اے پی ایس کے سینیئر استادوں میں سے ایک تھے اور اے پی ایس ورسک روڈ پشاور کے قیام کے ساتھ ہی اس کے ساتھ وابستہ ہوئے۔

وہ سکول اور کالج وِنگ میں اسلامیات پڑھاتے تھے۔ محمد سعید دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

وہ پشاور میں پیدا ہوئے اور یہیں سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ایم اے اسلامیات کر رکھا تھا اور انہیں عربی، انگریزی اور چینی زبان پر عبور حاصل تھا۔

محمد سعید نے پسماندگان میں بیوہ، تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

لیکچرار نواب علی

لیکچرار نواب علی بھی اے پی ایس کے سینیئر استادوں میں شامل تھے۔ وہ 1969 میں چارسدہ میں پیدا ہوئے اور ریاضی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔

وہ آرمی پبلک سکول ورسک روڈ سے 16 سال سے منسلک تھے۔ سانحے سے 15 سال قبل وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

ان کے لواحقین میں بیوہ، ایک بیٹا اور دو جڑواں بیٹیاں شامل ہیں۔ اس واقعے کے بعد ان کی بیوہ مردان منتقل ہوگئیں اور ان کا خاندان پشاور کو خیرباد کہہ گیا۔

سحر افشاں

سحر اے پی ایس کی بہت محنتی استاد تھیں۔ وہ 23 نومبر، 1981 کو پشاور میں پیدا ہوئیں۔ شروع سے ہی پڑھائی میں تیز تھیں اور انہیں اردو سے خاص لگاؤ تھا۔

بچپن سے ہی انہوں نے ٹھان رکھی تھی کہ وہ اردو ادب میں ماسٹرز کریں گی۔ 2006 میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے تدریس کا شعبہ اختیار کیا۔

وہ آرمی پبلک سکول میں آٹھویں، نویں، میٹرک اور فرسٹ ایئر کے طلبہ کو اردو پڑھاتی تھیں۔

ان کو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مضمون نویسی، بیت بازی اور مباحثوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ طالب علموں کو وہ ہی تیاری کرواتیں اور بچے مختلف انعامات جیت کر لاتے۔

اس کے ساتھ وہ کالج میں تقریبات کی میزبانی بھی کرتی تھیں۔ کوئی بھی تقریب ہوتی وہ تمام انتظامات میں سب سے آگے ہوتیں۔

ان کے جانے کے بعد ان کی والدہ اور بھائی ٹوٹ کر رہ گئے۔

صائمہ طارق

صائمہ طارق اے پی ایس پشاور کے نوجوان اساتذہ میں شامل تھیں۔ وہ بہت محنتی اور وقت کی پابند تھیں۔ انہوں نے پہلے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بعد میں ایجوکیشن میں ایم فل۔

صائمہ طارق نے 1998 میں اس وقت تدریس کا آغاز کیا جب وہ خود طالب علم تھیں۔ بعد ازاں پاکستانی فوج کے بریگیڈیر طارق سعید کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور اپنے شوہر کے ٹرانسفر کی وجہ سے پشاور میں سکونت اختیار کی اور 26 اکتوبر، 2014 کو آرمی پبلک سکول ورسک روڈ جوائن کیا۔

آٹھویں جماعت کی کلاس ٹیچر ہونے کے ساتھ وہ دیگر سیکشنز کو انگریزی پڑھاتی تھیں۔ انہیں اے پی ایس جوائن کیے چند دن ہی ہوئے تھے کہ یہ سانحہ ہوگیا۔

عینی شاہدین کے مطابق انہیں دہشت گردوں نے شناخت کے بعد جلا دیا تھا اور اس وقت وہ حاملہ تھیں۔

صوفیہ حجاب

صوفیہ ححاب اے پی ایس کے سینیئر اساتذہ میں سے تھیں۔ وہ بہت شفیق اور دھیما مزاج رکھتی تھیں۔

صوفیہ حجاب نے ڈبل ایم اے کر رکھا تھا جس میں سے ایک بین الاقوامی تعلقات (آئی آر) اور دوسرا اردو ادب میں تھا۔

وہ 10 سال سے درس و تدریس سے وابستہ تھیں اور سانحے سے چار سال قبل اے پی ایس سے منسلک ہوئی تھیں۔

صوفیہ حجاب طلبہ کو اردو اور سوکس پڑھایا کرتی تھیں۔ سانحے سے 16 سال قبل وہ وکیل امجد سہیل کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

بینش عمر

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور کی 28 سالہ بینش عمر بھی اے پی ایس کے ان اساتذہ میں شامل تھیں جو دہشت گردی کے باعث لقمہ اجل بن گئیں۔

وہ تین بیٹیوں کی ماں تھیں اور جب وہ دنیا سے گئیں تو ان کی چھوٹی بیٹی شیرخوار تھی۔ ان کے شوہر کا نام عمر زیب بٹ ہے۔

بینش نے کمپیوٹر سائنس میں ایم اے کر رکھا تھا۔ پھر انہوں نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور آرمی پبلک سکول پشاور میں تدریس کا آغاز کیا۔

وہ آٹھویں جماعت کو کمپیوٹر پڑھاتی تھیں۔ بینش بہت ہنس مکھ اور زندہ دل تھیں۔ ان کی قبر پر ان کی کم سن بیٹیوں کی تصویر نے سب کو رلا دیا تھا۔

سیدہ فرحت بی بی

سیدہ فرحت حافظ قرآن، ایم اے اسلامیات، ایم اےعربی اور بی ایڈ تھیں۔

1996 میں وہ سید عابد علی شاہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ ان کے بیٹے سطوت اور باقر بھی اے پی ایس میں زیر تعلیم رہے۔

سانحہ اے پی ایس میں وہ خود جان سے گئیں جبکہ ان کے دونوں بیٹے زخمی ہوئے۔

اس حملے میں ان کے بیٹے باقر کو گولی لگی اور وہ کافی عرصہ بیمار رہے۔ اس کے بعد ان دونوں بھائیوں نے تعلیم مکمل کی۔

حفصہ خوش

حفصہ خوش جوان سال ٹیچر تھیں۔ انہو ں نے تعلیمی ماحول میں آنکھ کھولی تھی اور ان کے والد خود پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔

حفصہ نے پہلے زوالوجی میں ماسٹرز کیا، پھر بی ایڈ کیا اور بائیو ٹیکنالوجی میں ان کا ایم فل ابھی جاری تھا۔ کیریئر کی بات آئی تو حفصہ نے اپنے والد سے مشورے کے بعد درس و تدریس کو چنا۔

انہوں نے اے پی ایس میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ان کی منگنی ہو چکی تھی اور مارچ میں ان کی شادی ہونی تھی لیکن موت نے مہلت نہ دی اور دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک سکول میں وہ بھی لقمہ اجل بن گئیں۔

سعدیہ گل خٹک

اے پی ایس کی استاد سعدیہ گل 1988 میں کرک میں پیدا ہوئیں۔ چھ بہن بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا۔ سعدیہ نے ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی۔

پھر انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور بی ایڈ بھی کیا۔ وہ برٹش کونسل کی ممبر تھیں اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر بھی تھیں۔

کتابوں اور انگریزی ادب سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ انہوں نے اگست 2014 میں اے پی ایس جوائن کیا تھا۔وہ طلبہ کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتی تھیں۔

حاجرہ شریف

حاجرہ شریف 28 اگست، 1986 کو پشاور میں پیدا ہوئیں۔ وہ چار بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں اور والد پی ٹی وی سے نائب قاصد کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

گورنمنٹ ڈگری کالج کوہاٹ روڈ سے پری میڈیکل کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ سٹی گرلز ڈگری کالج گلبہار سے بیالوجیکل سائنس میں بی ایس سی کیا اور پھر اسلامیہ کالج پشاور سے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا۔

انہوں نے 2010 میں ماسٹرز کرتے ہی تدریس کا شعبہ چن لیا۔ اگست 2014 میں ہی انہوں نے اے پی ایس ورسک روڈ جوائن کیا تھا۔ وہ بہت کم گو اور صوم صلاۃ کی پابند تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان