آرمی پبلک سکول: بے اولاد مومنہ نے زندگی سسرال کے نام کر دی

اگر چہ ظاہر شاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن آرمی پبلک سکول حملے میں ان کی ہلاکت کے بعد ان کی نوجوان بیوہ مومنہ بی بی نے اپنی ساری زندگی ان کے نام کرنے کی قسم کھائی۔

(سوشل میڈیا)

’ان کی شادی 2000 میں میرے چچا کی بیٹی سے ہوئی تھی، یہ پسند کی شادی تو نہیں تھی لیکن ہم قبائلیوں میں جس طرح خاندان میں شادی کا رواج ہے بالکل اسی طرح یہ رشتہ بھی طے پایا تھا۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں نئے ضم شدہ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والےمحمد زاہد پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بھائی ظاہر شاہ کی زندگی کی روداد بھی سنائے جارہے تھے جو آرمی پبلک سکول کے سانحے میں جان گنوا بیٹھے۔

پانچ بھائیوں میں ظاہر شاہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک تھے۔

محمد زاہد کا کہنا ہے کہ بھائی کے چلے جانے سے ان کی زندگیوں میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔

’انہوں نے شہر میں ایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی، وہ مالی، ٹیلر، ڈرائیور، ڈاکٹر سب کچھ تھے۔ گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ خود فوراً طبی امداد دیتے تھے۔ انہیں انجکشن لگانا بھی آتا تھا اور مرہم پٹی کرنا بھی۔ ان کا سامان اب بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔‘

اگر چہ ظاہر شاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن آرمی پبلک سکول حملے میں ان کی ہلاکت کے بعد ان کی نوجوان بیوہ مومنہ بی بی نے اپنی ساری زندگی ان کے نام کرنے کی قسم کھائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد زاہد کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ لینے کے لیے ان کے خاندان کے کسی بھی فرد نے انہیں کبھی مجبور نہیں کیا بلکہ یہ ان کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا جس پر وہ چھ سال گزر جانے کے بعد آج بھی قائم ہیں۔

’وہ صرف میری بھابھی نہیں بلکہ چچا کی بیٹی بھی ہیں۔ہم ان کے ساتھ خوش ہیں اور وہ ہمارے ساتھ خوش ہیں۔ میرے بھائیوں کے بچے ان کے ساتھ کافی مانوس ہیں،اور وہ ان کو ہی اپنی اولاد کہتی ہیں۔‘

تیراہ کی وادی میں پلی بڑھی مومنہ بی بی شادی کے بعد پشاور میں واقع چچا کے گھر آئیں تو شوہر کی محبت نے انہیں شہر کی زندگی اپنانے کا حوصلہ دیا۔

مومنہ بی بی کی کہانی ان کی زبانی سننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے رابطہ کیا تو مومنہ نے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں خواتین دوسری شادی نہیں کرتیں۔ کرتے ہیں لوگ دوسری شادیاں، لیکن میں نہیں کرنا چاہتی۔ میرے دیور میرا خیال رکھتے ہیں، ان کی بیویاں بھی میرے ساتھ اچھا برتاؤ رکھتی ہیں، پھر مجھے بھلا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ میں اپنے فیصلے سے مطمئن ہوں۔‘

مومینہ بی بی نے کہا کہ ان کے شوہر ظاہر شاہ ان کا بہت خیال رکھتے تھے، گو کہ ان کی اولاد نہیں تھی لیکن وہ ان کے ساتھ محبت سے پیش آتے تھے۔

16 دسمبر 2014 کا واقعہ مومنہ بی بی کی زندگی کا ایک سیاہ باب تھا۔ وہ باور کرائے جا رہی تھیں کہ وہ ایک مطمئن زندگی گزار رہی ہیں لیکن ان کی آواز سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ ابھی اس حادثے سے پوری طرح نہیں نکل پائیں۔

چھ سال قبل آرمی پبلک سکول حملے میں کُل 149 ہلاکتیں ہوئی تھیں، جن میں 132 بچے اور 17 اساتذہ اور ملازمین تھے۔

اگرچہ پاکستان فوج اور حکومت پاکستان نے اس واقعے کا انتقام لینے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر تاریخ کی سب سے بڑی جنگ (ضرب عضب) لڑی جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گرد مارنے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے اور ان کے زیر انتظام دہشت گرد نظام کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تاہم 149 مرنے والوں کےلواحقین کی اکثریت ان دعوؤں سے مطمئن نظر نہیں آتی، اور آج بھی انصاف کے حصول کے لیے مختلف فورمز پر آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی