ناسا نے چاند سے لائی گئی چٹان کے نمونے کو 50 سال بعد کھول لیا

’ڈب 73001‘ نامی یہ زیر تحقیق نمونہ خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمٹ نے دسمبر 1972 میں اپولو 17 مشن کے دوران جمع کیا تھا، جو اس پروگرام کا آخری نمونہ تھا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے چاند پر بھیجے گئے اپولو مشنز کے ذریعے زمین پر کُل 2,196 چٹانوں کے نمونے لائے جاچکے ہیں، جن میں سے ایک نمونے کو ناسا نے اب کھولنا شروع کیا ہے، جو 50 سال پہلے اکٹھا کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس تمام عرصے کے دوران چاند سے لائے گئے نمونوں کی کچھ ٹیوبوں کو بند رکھا گیا تھا تاکہ آنے والے سالوں میں جدید ترین تکنیکی پیش رفتوں کے تحت ان کا مطالعہ کیا جا سکے۔

ناسا ہیڈ کوارٹر میں پلینٹری سائنس ڈویژن کی ڈائریکٹر لوری گلیز نے اپنے ایک بیان میں کہا: ’ناسا کو معلوم تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرے گی اور مستقبل میں سائنس دانوں کو نئے سوالات کو حل کرنے کے لیے مواد کی نئے طریقوں سے  جانچ پڑتال کی اجازت دے گی۔‘

’ڈب 73001‘ نامی یہ زیر تحقیق نمونہ خلاباز یوجین سرنن اور ہیریسن شمٹ نے دسمبر 1972 میں اپولو 17 مشن کے دوران جمع کیا تھا، جو اس پروگرام کا آخری نمونہ تھا۔

35 سینٹی میٹر لمبی اور چار سینٹی میٹر چوڑی اس ٹیوب کو چاند کی ٹورس-لیٹرو وادی کی زمین میں لگایا گیا تھا، تاکہ چٹانوں کو جمع کیا جاسکے۔

چاند پر ویکیوم سیل کیے جانے والے دو نمونوں میں سے یہ پہلا نمونہ ہے، جسے کھولا گیا ہے۔ اس نمونے میں گیسیں یا غیر مستحکم مادے جیسے کہ پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ ہو سکتے ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد ان گیسوں کی تحقیق ہے، جو شاید صرف بہت کم مقدار میں موجود ہیں، تاکہ سپیکٹرومیٹری تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جاسکے۔

رواں برس فروری کے آغاز میں سب سے پہلے اس سیل شدہ نمونے کی بیرونی حفاظتی ٹیوب کو ہٹایا گیا تھا۔ اس موقعے پر چاند پر پائی جانے والی کسی گیس کے اخراج کا انکشاف نہیں ہوا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیوب میں موجود نمونہ سیل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد 23 فروری کو سائنس دانوں نے مرکزی ٹیوب میں چھید کرنے شروع کیے، جس میں تقریباً ایک ہفتہ لگا۔

رواں موسم بہار میں چاند سے لائی گئی چٹان کو احتیاط سے نکال کر توڑا جائے گا تاکہ مختلف سائنسی ٹیمیں اس کا مطالعہ کر سکیں۔

اس نمونے کو نکالنے کی جگہ خاص طور پر دلچسپ ہے کیونکہ یہ لینڈ سلائیڈنگ والی جگہ ہے۔

اپولو کی کیوریٹر جولین گراس نے کہا: ’اب چاند پر بارش نہیں ہوتی اور اس لیے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ چاند پر لینڈ سلائیڈنگ کیسے ہوتی ہے۔‘

گراس نے کہا کہ محققین کو امید ہے کہ وہ اس نمونے کا مطالعہ کریں گے تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ کیا ہے۔

’ڈب 73001‘کے بعد، اب چاند سے لائے گئے صرف تین نمونے موجود ہیں اور وہ کب کھولے جائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں سینیئر کیوریٹر ریان زیگلر نے کہا: ’مجھے شک ہے کہ ہم مزید 50 سال انتظار کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’خاص طور پر ایک بار جب انہیں آرٹیمس کے نمونے بھی مل جاتے ہیں تو آرٹیمس سے آنے والے نمونوں اور ان سیل شدہ بقیہ نمونوں کا حقیقی وقت میں براہ راست موازنہ کرنا اچھا ہوگا۔‘

واضح رہے کہ آرٹیمس چاند پر ناسا کا اگلا مشن ہے۔ ایجنسی 2025 میں انسانوں کو چاند پر واپس بھیجنا چاہتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس