بھارت میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ، کب کیا ہوا؟

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں آزادی سے لے کر کے آج تک کل 27 مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک آزمائی جا چکی ہے۔

پانچ اگست 2019 کو دہلی میں بھارتی پارلیمان کی عمارت۔ (اے ایف پی)

آج کل پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی ہوئی ہے جس پر ووٹنگ ہونا باقی ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ بھارت میں مختلف وزرائے اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تواریخ کا جائزہ لیا جائے۔

بھارت سمیت کئی ممالک بشمول پاکستان میں برطانوی طرز عمل کا پارلیمانی نظام ہے جسے ویسٹ منسٹر نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں پارلیمان کے اندر ’اجتماعی ذمہ داری‘ کی اصطلاح بہت اہمیت کی حامل ہے۔ کونسل آف منسٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اعتماد کے ساتھ پارلیمان کا اعتماد بھی بحال رکھیں۔ اگر وزیر اعظم ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے تو اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں حکومت گر جاتی ہے۔

اجتماعی ذمہ داری کو ناپنے کے طریقہ کار کو ’نو کانفیڈنس‘ یعنی عدم اعتماد کہا جاتا ہے۔ اپوزیشن کی جماعت یا جماعتیں سپیکر پارلیمنٹ کو عدم اعتماد کے لیے تحریک پیش کرتی ہیں۔ بھارت کے آئین کا آرٹیکل 75 اجتماعی ذمہ داری کی بات کرتا ہے جبکہ عدم اعتماد کا طریقہ پارلیمنٹ کے رولز آف پروسیجرس نمبر 198 میں درج ہے۔

حزب اختلاف کا کوئی رکن بھی یہ موشن لا سکتا ہے بشرطیکہ اس پر لوک سبھا کے 50 ممبران کے دستخط ہونے چاہیں۔ جب سپیکر لوک سبھا اس قرارداد کو منظور کر لیتا ہے تو جمع کرائے جانے والی تاریخ سے 14 دن کے اندر اندر وہ پابند ہوتا ہے کہ لوک سبھا کا اجلاس بلایا جائے۔

اجلاس بلانے کے بعد لوک سبھا میں بحث ہوتی ہے پھر ووٹنگ کروائی جاتی ہے۔ یہ ووٹنگ منہ سے بولنے یا تقسیم کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔ ووٹنگ میں حکومت کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ اس کو 543 میں سے 272 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ لوک سبھا کی کل تعداد 545 ہوتی ہے لیکن منتخب اراکین 543 ہی ہوتے ہیں۔ دو اراکین اینگلو اینڈین کمیونٹی سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ 

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی بات کریں تو آزادی سے لے کر کے آج تک کل 27 مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک آزمائی جا چکی ہے۔ سب سے زیادہ عدم اعتماد پیش کرنے کا ریکارڈ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن جیوتی باسو کے نام ہے جنہوں نے چار مرتبہ یہ تحریک پیش کی۔

پہلی بار تحریک عدم اعتماد 1963 میں جواہر لال نہرو کی حکومت کے خلاف پیش کی گئی جو کہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے حق میں صرف 62 ووٹ پڑے۔ یہ تحریک جے پی کرپلانی نے پیش کی تھی۔  یاد رہے یہ وہ وقت تھا جب بھارت کو چین سے جنگ میں شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ ادھر جے پی کرپلانی دوبارہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر نہ بنائے جانے پر نہرو سے نالاں تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے زیادہ عدم اعتماد کی قرارداد اندرا گاندھی کی حکومت کے خلاف پیش کی گئیں، جسے 15 مرتبہ عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ لال بہادر شاستری اور نرسمہا راؤ کی حکومتوں کے خلاف تین، تین مرتبہ عدم پیش کی گئی۔  مرار جی دیسائی، جنہیں پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ نشان پاکستان سے بھی نوازا گیا ہے، کی حکومت کے خلاف دو مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔  ایک ایک مرتبہ راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی کی حکومتوں نے بھی اس کا سامنا کیا۔

تحریک عدم اعتماد کب، کس کے خلاف کامیاب ہوئی؟ 

1965 تک بھارت میں ایک ہی پارٹی سب سے غالب ہوتی تھی، وہ تھی انڈین نیشنل کانگریس۔ شروعات میں چونکہ اپوزیشن  آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی اس لیے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانا ناممکن سی بات سمجھی جاتی تھی۔ ابتدا میں عدم اعتماد کا مطلب حکومت کا متعلقہ مسئلے کی طرف توجہ دلانا ہوتا تھا۔

بھارت میں عدم اعتماد کی اہمیت 1970 کی دہائی میں بڑھنا شروع ہوئی، یہ وہ وقت تھا جب نت نئی پارٹیاں وجود میں آ رہی تھیں اور ذات پات، لسانی یا علاقائی بنیادوں پر اپنا اثر رسوخ قائم کر رہی تھیں۔

1975 کی ایمرجنسی کے بعد پہلی مرتبہ مرکز میں کانگریس کے علاوہ کسی پارٹی کی حکومت وجود میں آئی۔ یہ حکومت جنتا پارٹی کی تھی۔ وہ جنتا پارٹی آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی نہیں بلکہ مختلف جماعتوں سے مل کر بننے والے حکومتی اتحاد کا نام تھا۔ اس میں کانگریس او، ساواتنترا پارٹی، سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا، بھارتیہ جانا سنگ اور لوک دل شامل تھے۔ 

ایمرجنسی کے بعد بھارت میں سیاست کا توازن بدلنے کے ساتھ عدم اعتماد کی اہمیت بھی بڑھی۔ 1978 میں مرار جی دیسائی کو اپنی حکومت کے خلاف دوسری عدم اعتماد تحریک کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ پہلی عدم اعتماد کو دیسائی سرکار نے کامیابی سے ناکام بنا دیا تھا۔

دیسائی کے بعد چوہدری چرن سنگھ وزیر اعظم بنے چونکہ ان کی حکومت بھی دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔  1979 میں چرن سنگھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ممکنہ ہار سے بچتے ہوئے چرن سنگھ نے صدر ہند کو لوک سبھا تحلیل کرنے کا کہہ دیا۔

اسی طرح 1989 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت واپس لینے پر وی پی سنگھ کو گھر جانا پڑا۔ 1997 میں کانگریس نے یونائٹیڈ فرنٹ نامی حکومت، جس کی قیادت ایچ ڈی ڈی وی گوڈا کر رہے تھے، سے حمایت واپس لے لی اور نتیجے میں حکومت گر گئی۔ اس کے بعد آئی کے گجرال وزیر اعظم بنے جو چند ماہ بعد عدم اعتماد کی تاب نہ لاتے ہوئے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

1999 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت اکثریت ثابت کرنے میں صرف ایک ووٹ پیچھے رہی اور بالآخر واجپائی کو استعفیٰ دینا پڑا۔ 

لوک سبھا میں آخری تحریک عدم اعتماد 2018 میں تیلگو دیشم پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی، مگر مودی حکومت نے بھاری اکثریت سے اسے ناکام بنایا۔ اس سے پہلے 2008 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھارت امریکہ جوہری معاہدے کے معاملے پر تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ منموہن سرکار بھی اپنی اکثریت دکھانے میں کامیاب رہی تھی۔

کل ملا کے دیکھا جائے تو لوک سبھا کی تاریخ میں 27 میں سے سات دفعہ ایسا ہوا ہے کہ براہ راست عدم اعتماد یا اس کے خوف سے مختلف حکومتوں کو گھر جانا پڑا ہے۔ 

کیا سپیکر کسی رکن کو ووٹ دینے سے روک سکتا ہے؟ 

نہیں۔  لوک سبھا کا سپیکر کسی بھی صورت کسی رکن پارلیمان کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا خواہ وہ پارٹی ہدایات کے مخالف ہی کیوں نہ جا رہا ہو۔

جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتی ہے تو اس کے بعد ہر پارٹی اپنے لوک سبھا کے اراکین کو ایوان میں حاضری یقینی بنانے اور پارٹی کی ہدایات کے مطابق ووٹ کرنے کا نوٹس جاری کرتی ہے جس کو ویپ (whip) کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی رکن لوک سبھا پارٹی ہدایات کے برخلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ اینٹی ڈیفکیشن قانون کے تحت ڈی سیٹ ہو سکتا ہے۔ 

پارٹی ہدایات کے برخلاف ووٹ دینے سے رکن کیسے ڈی سیٹ ہو سکتا ہے؟ اس کے لیے آئین ہند کے دسویں شیڈول، جس کو اینٹی ڈیفکیشن کا قانون بھی کہا جاتا ہے، میں پوری وضاحت دی گئی ہے -

سپیکر لوک سبھا کسی بھی رکن کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روک سکتا اور موصوف رکن کا ووٹ جس طرف جائے وہ گنا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ