جب خواتین کو اسمبلی میں بیٹھنے پر شرم آئی

جمعے کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں مردوں کے آپس کے معنی خیز جنسی اشاروں اور نامناسب الفاظ کے استعمال کے بعد ایوان میں موجود خواتین کو یہ دھمکی دینی پڑی کہ ایسا ہوا تو وہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں نہیں بیٹھیں گی۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر  (بشکریہ: ڈاکٹر سمیرا شمس آفیشل فیس بک پیج)

‎پاکستان کے منتخب ایوان کے مرد اراکین کے رویے عورتوں سے متعلق متنازع رہے ہیں۔ یہی سب کچھ جمعے کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی ہوا جہاں پر مردوں کے آپس کے معنی خیز جنسی اشاروں اور نامناسب الفاظ کے استعمال کے بعد ایوان میں موجود خواتین کو یہ دھمکی دینی پڑی کہ ایسا ہوا تو وہ آئندہ اسمبلی اجلاس میں نہیں بیٹھیں گی۔

جمعے کو خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن خواتین اراکین نے ایک مشترکہ احتجاجی خط کے ذریعے صدارتی کرسی پر براجمان ڈپٹی سپیکر محمود جان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ اگر مردوں نے ان کی موجودگی میں معنی خیز الفاظ اور اشاروں کا استعمال بند نہ کیا تو خواتین اجلاس کا بائیکاٹ کرکے دوبارہ اسمبلی میں نہیں آئیں گی۔ ان کے اس فیصلے کے بارے میں ڈپٹی سپیکر نے ایوان کو آگاہ کیا اور اس کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

تحریک انصاف کی مخصوص نشست پر ضلع دیر پایان سے ایوان میں آنے والی سمیرا شمس نے اس احتجاجی خط کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی اپوزیشن کے متعلقہ رکن شیر اعظم وزیر ایسا کرتے رہے ہیں۔ وہ ایوان میں غلط زبان استعمال کرتے ہیں جس پر ہم نے پہلے بھی اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا اور پھر ہمیں عنایت اللہ خان کی سربراہی میں آنے والے جرگے نے اجلاس میں شرکت پر آمادہ کیا تھا۔‘

سمیرا شمس نے بتایا: ’جمعے کو بھی انہوں نے غلط زبان استعمال کی۔ ان کی پارٹی ہی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی بھی قابل شرم حرکات کر رہی تھیں، جس پر ہال میں موجود باقی خواتین ارکان کو شرم آئی اور پھر ہمیں واک آؤٹ کرنا پڑا۔ جب ہمیں منانے کے لیے اپوزیشن کی خواتین اور مرد اراکین پر مشتمل جرگہ آیا تو ہم نے مل کر ایوان کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو ہم اس ایوان میں نہیں آئیں گے جہاں پر ایسی قابل شرم زبان استعمال ہوتی ہو۔ ایسی زبان کوئی بھی استعمال کرے ہم اسے مزید برداشت نہیں کرسکتے چاہے وہ حکومت کے لوگ ہوں یا اپوزیشن کے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب سمیرا شمس سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن تو کہہ رہی ہے کہ ہاتھ کے معنی خیز اشاروں کا استعمال حکومتی رکن فضل حکیم نے شروع کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے کسی حکومتی رکن کو ایسا کرتے نہیں دیکھا۔‘

قبل ازیں اسمبلی کے جاری اجلاس میں مالی سال 20-2019 کے بجٹ پر بحث جاری تھی، جس کے دوران ضلع بنوں سے پیپلز پارٹی کے رکن شیر اعظم وزیر نے اپنی تقریر کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کی کارکردگی پر سوال اٹھائے اور کہا کہ ’چھوکروں اور لڑکیوں سے کبھی پہلے کوئی کام سدھرا ہے جو اب سدھر پائے گا؟‘

جس پر سوات سے تحریک انصاف کے رکن فضل حکیم نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ چھوکرہ نہیں بلکہ نوجوان ہیں، اس لیے ان کے بارے میں چھوکرے کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ ان کے ہاتھ کے ایک مخصوص انداز میں اشارے کو پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے گالی کے انداز میں لے کر اس پر جوابی وار کیا اور ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اسی شور کے دوران فضل حکیم اپنے ہاتھ کو مخصوص انداز میں لہراتے رہے جبکہ اپوزیشن کے کچھ مرد حضرات بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور فضل حکیم کو اس بات کے لیے مورد الزام ٹھہرایا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی کی جانب ہاتھ سے ایسا اشارہ کیا ہے جو کسی بھی صورت مناسب نہیں اور یہ اشارہ جوانمردی نہیں بلکہ سامنے والے کو جنسی طور پر نشانہ بنانے کی دھمکی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایوان میں شور شرابے کے دوران وہاں موجود خواتین ہال سے چلی گئیں جنہیں بعدازاں منا کر لایا گیا۔

ماحول میں تلخی تھوڑی سی کم ہوئی تو سپیکرنے شیر اعظم وزیر کی جانب سے لفظ ’چھوکروں‘ کو کارروائی سے حذف کردیا اور مردوں کو خواتین کے آئندہ اجلاس میں نہ آنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔

ہاتھ کے اشارے سے ماحول کو بدل دینے والے تحریک انصاف کے فضل حکیم سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا اشارہ کیوں کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد کوئی غیر اخلاقی اشارہ کرنا نہیں تھا بلکہ دراصل اپوزیشن کو جواب دینا تھا کہ تحریک انصاف کے منتخب اراکین ’چھوکرے‘ نہیں بلکہ نوجوان ہیں اور ان کے ہاتھ کا اشارہ بھی یہ ثابت کرنا تھا کہ ہم نوجوان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلزپارٹی کے متعلقہ رکن نے اس سے پہلے بھی ہماری پارٹی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے جنہیں ہم نے برداشت کیا کیونکہ ہم حکومت میں ہیں، ہمیں بہت کچھ برداشت کرنا ہوگا لیکن وہ ہمیں چھوکرہ کہیں تو یہ ہمیں قبول نہیں، اس لیے مجھے جواب دینے کے لیے کرسی سے اٹھنا پڑا۔‘

فضل حکیم کا کہنا تھا کہ ’میرا ہاتھ اُسی طرح اٹھا تھا جیسا کوئی نوجوان اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اٹھاتا ہے لیکن یہ گالی یا جنسی نشانہ بنانے کی دھمکی کے طور پر نہیں اٹھا تھا۔ ہاں ہر کسی کی اپنی سوچ ہے۔ وہ اسے جیسے لیتا ہے اس کی مرضی ہے، ہم کسی کی سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ ہمیں یہ قبول نہیں کہ کوئی ہمیں چھوکرہ جیسے برے لفظ سے یاد کرے۔ وہ اگر بہت ہی کچھ کہنا چاہتا تھا تو بے شک ’یوتھ‘ کہہ دیتا، ’نوجوان‘ کہہ دیتا، ’ناسمجھ‘ کہہ دیتا لیکن ایسے غلط الفاظ سے یاد کرے یہ ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں ابھی عمرہ کرکے واپس آیا ہوں۔ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے کوئی غلط اشارہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے مجھ پر الزام لگایا، لیکن میرا دل اور ضمیر صاف ہے۔‘

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں چھوکرے کا لفظ اچھے معنی میں نہیں لیا جاتا اور ان علاقوں میں یہ لفظ ان لڑکوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کی بجائے اپنی گزر اوقات کے لیے خود سے بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ رہتے اور اس طرح گزارا کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین