ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر فیصلہ سنانے والے جج کون ہیں؟

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سینیئر جج شامل ہیں جو ماضی میں ملکی تاریخ کے چند اہم اور تاریخی فیصلوں کا حصہ رہے ہیں۔

دائیں سے بائیں: جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس منیب اختر (تصاویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

’فیصلوں پر تنقید کریں، منصف پر نہیں‘ کہنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے اس لارجر بینچ کی سربراہی کی جس نے تین ‎اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

اس رولنگ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سازش اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا تھا اور اس کے فوری بعد وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔

سریم کورٹ نے اس رولنگ پر ازخود نوٹس لیا، جس کی سماعت پانچ روز جاری رہی اور عدالت نے جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے دی، اسمبلی بحال کردی اور نو اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔ 

اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں مندرجہ ذیل جج شامل تھے:

چیف جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس عمر عطا بندیال سابق صدر پرویز مشرف کے 2007 میں دوسرے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لینے سے انکار کرنے والے ججوں میں سے ایک ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دیے جانے سے متعلق الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

اسی تین رکنی بینچ نے قاسم سوری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ جب تک الیکشن ٹریبونل کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک متعلقہ حلقے میں ضمنی انتخاب نہ کروائیں۔

اس کے بعد قاسم سوری رکن اسمبلی کے ساتھ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر بھی برقرار رہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں وزیراعظم عمران خان کو ’صادق اور امین‘ قرار دینے سے متعلق فیصلہ دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کےسربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن

‎2016 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہونے والے جسٹس اعجاز الاحسن نے کئی اہم کیسوں کی سماعت کی، جن میں پاناما پیپرز کا کیس بھی شامل ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن سماعت کرنے والے بینچ کے رکن تھے جس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ انہیں اور ان کے بچوں کے حوالے سے نیب میں ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

حالیہ کیس میں ’اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے؟‘ جیسے ریمارکس دینے والے جسٹس اعجاز الاحسن سینیٹ اوپن بیلٹ کیس کے پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی رہے، جس نے انتخابات سیکریٹ بیلٹ پر ہی رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس مظہر عالم

تحریک عدم اعتماد کیس کے لارجز بینچ کے تیسرے جج جسٹس مظہر عالم ہیں جو 2016 میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کا حصہ رہے، جس میں سابق فوجی صدر کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

اسی عدالت نے ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کیس اپنی نوعیت کا تاریخ کا پہلا ایسا کیس تھا جس میں آرٹیکل چھ کے تحت ایک فوجی آمر کے خلاف کارروائی کی گئی اور اسے اشتہاری قرار دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر

جسٹس مظہر عالم دس رکنی لارجر بینچ کے ان چھ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2021 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست منظور کی۔

اسی بینچ کے ایک اور جج جسٹس منیب اختر بھی ہیں۔ اس کیس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا آیا جہاں جسٹس منیب اختر نے دوسرے فاضل جج کی ’بات میں مداخلت نہ کریں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی، دوسرے کا موقف بھی سننا چاہیے‘ کے ریمارکس دیے۔

جسٹس منیب اختر 2018 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل 2021 میں سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے تھے۔

یہ سات سال میں پہلی ایسی تعیناتی تھی جہاں بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں کسی جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی گئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل بھی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان