’پرستان،‘ جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے

یہ ڈراما دیکھتے ہوئے ہمیں ایک ہی دکھ کھائے جا رہا ہے، یہ پریاں اتنی احمق کیوں ہوتی ہیں؟

سب ڈراموں کی طرح یہاں بھی لڑکیوں کی شادی سے جڑے مسائل موجود ہیں (ہم ٹی وی)

جتنے روزے ہو ئے ہیں اتنے ہی دن ہمیں پرستان کے سفر پر ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ کوہِ قاف والا پرستان نہیں بلکہ ایک ڈراما سیریل کی بات ہو رہی ہے جو رمضان میں دکھایا جا رہا ہے۔

یہ ڈراما دیکھتے ہوئے ہمیں ایک ہی دکھ کھائے جا رہا ہے، یہ پریاں اتنی احمق کیوں ہوتی ہیں؟ یا اسے سادگی ہی کہتے ہیں یا محرومیاں؟ نظریہ ضرورت کو ان دو لفظوں کے درمیان ادل بدل دیتا ہے۔

آئیں ’پرستان‘ کی بات کرتے ہیں۔ تو بات کچھ یوں ہے کہ جس طرح سکرپٹ مکمل مڈل کلاس ماحول پہ لکھا گیا ہے، اس کے جو مسائل بیان ہوئے ہیں وہ گھر کی مالکن خاتون کو مہنگائی کا بلڈ پریشر بن کر چڑھتے ہیں۔ مسائل اور ہیں، عکس بندی ان مسائل کے مطابق کسی طور بھی اصلی اصلی نہیں لگ رہی۔ عکس بندی جن جگہوں پہ ہوئی ہے، ان کے مسائل اور ہوتے ہیں۔

جیسے نئی طرز کے نقشوں پہ بنے ہو ئے بڑے بڑے گھر دکھائے گئے ہیں، ان کی دیکھ بھال کسی بھی طور اس بجٹ میں نہیں ہو سکتی جس بجٹ پہ ڈراما مکالمے کے توسط سے دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مکالموں میں جس کا ذکر ملتا ہے یہ فرنیچر اور یہ کمرے کسی دو نسلوں پہلے والے نہیں ہیں۔ تب فرنیچر کسی اور طرز کا ہوتا تھا، نقشے کسی اور طزر کے بنتے تھے۔ تمام تر جدید منٹیننس سے بھی یہ ماحول نہیں بنایا جا سکتا اور اگر گھر کا خرچ ہی مشکل سے چل رہا ہے تو گھر مینٹین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی اتنے بڑے گھر ایک ملازم سنبھال سکتا ہے۔ جو بھی ہو، جس کلاس کا مکالمہ لکھا جائے اس کلاس میں ہی عکس بندی ہی اس میں جان ڈالتی ہے۔

یونہی محلے کی دادی امی کے گھر سالن کے ڈونگے بھر بھر جا رہے ہیں۔ ہر وقت حساب کتاب کرنے والی ماں کے بجٹ میں ایسی وسیع تر گنجائش نہیں ہوتی۔ اس پہ کمال یہ کہ ابھی تک خاتون کو پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ان کی بیٹی اور بھتیجی دادی جان کو قیمہ مٹر بھرے سالن کے ڈونگے بھیج رہی ہیں

لیکن پرستان ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

سب ڈراموں کی طرح یہاں بھی لڑکیوں کی شادی سے جڑے مسائل موجود ہیں، لیکن ابھی جو سب سے مزے کی بات ہوئی ہے وہ یہ کہ پھوپھی جان کے رشتے کے لیے جو لوگ دھوکہ دے کر لڑکی دیکھنے آتے ہیں ان کے ساتھ جو ناروا سلوک دکھایا گیا ہے۔

ہم کو سمجھ نہیں آتا ڈرامے میں لڑکے کوئی نوکری شوکری، کوئی کاروبار کرتے دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ نہ کوئی پڑھتا ہے۔ سب کو ایک ہی کام ہے، لڑکی سے محبت، شادی کی فکر اور لمبی سی گاڑی۔

اگر ایسے دھوکے باز گھرانوں کے ساتھ ایسا سلوک شروع کر دیا جائے تو لڑکی اور لڑکیوں کے گھر والوں کی عزت میں کافی اضافہ ہو گا۔ لیکن بات صرف دھوکے باز اور چالاک لوگوں کی ہو رہی ہے۔

مکالمے پنجابی تہذیب میں رنگ کے رنگین بنائے گئے ہیں، لیکن اچھے لگ رہے ہیں۔ محاروں کے الٹ پھیر سے بھی اچھا کام لیا گیا ہے۔

’پھیکے رنگ کی گاڑی، ٹیڑھے میڑے مرد، الٹی سیدھی ہانڈیاں، بھینس چوری ہونا۔‘

ایک طرف اردو تہذیب اپنے جوبن پہ ہے، ایک طرف گلابی اردو، لیکن نسلیں ملنے سے جو محبت پیدا ہو رہی ہے وہ بھی دکھائی دیتی ہے۔

مگر بھیا ہم کو سمجھ نہیں آتا ڈرامے میں لڑکے کوئی نوکری شوکری، کوئی کاروبار کرتے دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ نہ کوئی پڑھتا ہے۔ سب کو ایک ہی کام ہے، لڑکی سے محبت، شادی کی فکر، کچھ کچھ ہو جانا۔ ایک بستہ لے کر نکلنا یا آنا، لمبی سے گاڑی، ہر وقت سواری۔

پھر ہمیں سماج سے بھی کسی احمقانہ پن کا گلہ نہیں ہو نا چاہیے۔ اگر ہم ہر وقت نہ ملنے والی محبت سے بدلے کی آگ میں جلتے رہیں گےاور دوسروں کو جلانے کے لیے نئے رشتے بناتے رہیں گے اور ایسی کہانیاں بنتے رہیں گے تو یہ سب ہماری پیداوار ہے۔

محلے داروں کے حقوق ڈرامے میں بھی زیادہ ہو گئے ہیں، مگر تقسیم اکثر ڈراموں میں ایک جیسی آ رہی ہے۔

ایک گھر میں ڈھیر ساری لڑکیاں تو دوسرے میں لڑکے۔ بہن بھائی والی کہانی لکھنا ذرا دشوار ہوتی ہے مگر سماج کو مضبوط بناتی ہے۔ یہ بہن بھائی والا رشتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔

محلے دار سے محبت کی کہانی تو اچھی بن جاتی ہے، عکس بندی بھی عمدہ ہو جاتی ہے، مگر سماج کو خواب بھی عجب دے دیتی ہے۔

محلے داروں کے حقوق والی کہانیاں اب چونکہ نئی سوسائٹیاں بننے سے، نئے شہر آباد ہو نے سے اپنی جگہ زیادہ بنا رہی ہیں۔ اس لیے زیادہ فلمائی بھی جا رہی ہیں۔

رشتے ایسے میں ذرا درجہ دوم پہ چلے جاتے ہیں۔ ویسے سماج میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دو یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت سے زیادہ دو ٹوٹے ہو ئے دل جوڑنا بنیادی مقصد لگ رہا ہے۔ اس کے بعد اس سلطنت پرستان میں شاید سب مسائل حل ہو جائیں گے۔

مرکزی کردار سے ثانوی کرداروں تک سب زنانہ کردار سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ کیا سماج میں ہر طرف ایسی ہی خواتین پائی جاتی ہیں؟ لیکن پلیز یہ ڈراما ہے، ہمسائیوں کے گھر میں اتنی مداخلت اچھی نہیں ہوتی۔ نہ ہی ہر وقت ہمسائیوں کے لڑکوں کو متاثر کر نے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔

ایسا بھی کم ہی ہوتا ہے کہ ایک ہمسایہ ویگو ڈالے پر اور دوسرا بالکل پیدل ہو۔ ایسے محلے کم ہی آباد ہوں گے جہاں معاشرتی تقسیم معاشی تقسیم سے الگ ہو۔

کہانی کا سر پاؤں دکھائی دے یا نہ دکھائی دے، بس اس کو پرستان سمجھ کر دیکھیں، وہاں شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا۔

مگر سب سے خاندانی پن ان دو ملازموں زبیدہ اورامان اللہ میں دکھائی دے رہاہے۔ کیا اصلی سچی عشق کی داستان بننے جا رہی ہے۔  یہ دونوں اپنے کردار اور مکان میں فٹ فاٹ محسوس ہو رہے ہیں۔

اصل لیلیٰ مجنوں کی جوڑی تو یہی ہے۔ بقیہ کردار شادی، نوکری، مہنگائی، ٹیوشن، خوابوں، دوستیوں، محبوبوں و متاثرین کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ تاحال زبیدہ اور امان اللہ دونوں کی جنگ زندگی کی طرح صرف اپنی جنگ ہے، جو رمضان کے آخری عشرے تک کم از کم ڈرامے میں تاج محل بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

نئے کردار کہانی کو الجھا رہے ہیں، لیکن ایسی کہانیوں کے آخر میں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

آپ بھی امید رکھیں ہم بھی امید سے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ