’دوبارہ‘: ’لال لگام‘ مہرالنسا کو نہیں معاشرے کی ’بوڑھی سوچ‘ کو لگائیں

ہر عورت پہ جوانی دو بار آتی ہے۔ اس کی دوسری جوانی 40 کے آس پاس آتی ہے۔ وہ رنگ اس کے اصل رنگ ہوتے ہیں، کیونکہ تب وہ ایک مکمل عورت بن چکی ہوتی ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی میں مثبت پہلو انسان کے ساتھ انسان کا ملنا ہے (ہم ٹی وی)
 

ہم نے ایک بار اپنے چچا مرحوم سے پوچھ لیا کہ ’چاچو، یہ مرد کو دوسری شادی میں اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟‘

کہنے لگے، ’بیٹا مرد کو ذاتی طورپہ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بس جب نکاح کے وقت کہا جاتا ہے ’لڑکا‘ آ گیا، یہ لفظ ’لڑکا‘ اسے جو تسکین دینا ہے اس کی کوئی قیمت نہیں، بس وہ اس لفظ کو سننے کے لیے شادی کرتا ہے۔ ‘

اس تمہید سے یہ مت سمجھیے گا کہ ہم ایک مشہور شو بز/سیاسی/مذہبی شخصیت کی تازہ شادی کی بات چھیڑنے جا رہے ہیں۔ دراصل ہم آج کل سیاسی ڈراموں سے نکل کر ڈراما چینلوں پہ ہیں۔ سیاسی ڈراموں کو پیش کرنے کا بیڑا نیوز چینلوں نے اٹھا رکھا ہے، ہم بات کر رہے ہیں مہرالنسا کی دوسری شادی کی۔ کون سی مہرالنسا؟ ڈراما ’دوبارہ‘ کی مہرالنسا۔

ذرا عمر نے کروٹ لی تو عورت جو رنگوں کا امتزاج ہے، اس کی اپنی سوچ رنگ چھننے لگتی ہے۔ کچھ خواہشیں دعا سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں، جو زندگی میں طوفان کی طرح رستہ بنا سکتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ اس کہانی میں ہوا ہے۔ وہ بیوہ جسے صرف ہم دفن نہیں کرتے یا مرے ہوئے شوہر کے ساتھ ستی نہیں کرتے، شاید اسے سفید لبادے میں ایک زندہ لاش بنا کر اس لیے رکھتے ہیں کہ کفن کی سفیدی سے وہ جلد زمانے کا بوجھ کم کر دے گی۔

تنہائی سمندر کی بھی ہو تو میٹھے دریا ملنے سے نمکین پانی میٹھے میں نہیں بدلتا۔ یونہی تنہائی سے انسان سمندر تو بن سکتا ہے، مگر میٹھا نہیں رہتا۔ تنہائی کی ایک خاص حد ہوتی ہے، اس کے بعد وہ ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ 

کہانی میں مثبت پہلو انسان کے ساتھ انسان کا ملنا ہے۔

زندگی کا حق مرد وعورت بطور انسان لے کر پیدا ہوتے ہیں، لیکن عورت کو عمر کے کسی بھی حصے میں اپنی زندگی پہ اختیار نہیں دیا جاتا۔ پیدا ہونے سے لحد تک اسے اپنے ساتھی مردوں کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھل کر رہنا ہے تو ہی وہ سماج کی بہترین عورت ہے۔ یہاں سے اس کی ذات کی نفی شروع ہو جاتی ہے۔

یہ ساتھی مرد باپ سے بیٹے تک ہوتے ہیں، جن کے اصولوں کے مطابق چلتے چلتے ایک جوان عورت بھی تھک جاتی ہے اور اس ڈرامے میں تو بات کی گئی ہے ادھیڑ عمر عورت کی۔ وہ عورت جو بیوہ بھی ہے، جس نے زندگی کو بھری جوانی میں بھی چھو کر نہیں دیکھا، لہٰذا ایک خلا تو ہے۔

اک خواہش تو ہے زندگی کو محسوس کرنے کی۔ زندگی جینے کی۔ سو یہ کہانی ہے بڑھتی عمر کی بیوہ عورت کی جو زندگی جینے کی تمنا رکھتی اور سماج سے اپنا حق لیتی ہے۔

کہانی کے آغاز میں ہی مہرالنسا شوہر کی وفات کے وقت بال کھولتی دکھائی دیتی ہے۔ گویا یہ منظر کہانی اور مہرو جیسی عورتوں کی تفسیر ہے، جو شادی کے وقت ہی بیوہ ہو جاتی ہیں۔

 مہرو کو 19 سال میں یہ کہہ کر دان کر دیا گیا تھا کہ اس کے باپ کی وفات کے بعد اس کو سنبھالنے والا کوئی ہونا چاہیے۔ سمجھنے اور سنبھالنے میں جتنا فرق ہے اتنا ہی کہانی میں آگے چل کر دکھائی دیتا ہے۔

ثروت نذیر نے مردہ سوچ پہ ضرب لگائی ہے۔ شوہر اگرزیادہ عمر کا ہے اس نے اپنی طبعی موت مرنا ہے۔ ہم اپنی کم سن بیٹی کی شادی ایک عمر رسیدہ مرد سے کرتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اس کی وفات طب کے مطابق پہلے بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی بیماریاں طب کے مطابق پہلے شروع ہو جائیں گی۔ اس کی کمزوری طب کے مطابق پہلے در آئے گی۔

نہ ہی یہ خیال کبھی کسی عمر رسیدہ، ادھیڑ عمر پوری عقل والے مرد کے دماغ پہ دستک دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سوچ کا صرف ایک زاویہ ہے۔

سوچ کا دوسرا پہلو یکسر مختلف ہے۔ جس کو سوچنا بھی سماج کو کراہت لگتا ہے، کیونکہ پرانی سوچ نے ذہنوں پہ قفل ڈال رکھے ہیں۔ جب پرانے تالے ٹوٹتے ہیں توایسا ہی شور شرابہ ہوتا ہے، جو اس وقت ہو رہا ہے۔

’بوڑھی گھوڑی لال لگام‘ کی سوچ پروموٹ کی جا رہی ہے۔ نہ جینے دینے کے حق کی بات کی جا رہی ہے، جس کو کم از کم یہاں کا قانون چیلنج نہیں کر سکتا۔ یہاں کی شریعت اسے ویسے ہی مہکاتی ہے۔ جیسے چار شادیوں اور ستر حوروں کو۔ تو سماج کیوں کنٹرول کر رہا ہے؟

جوانی دیوانی ہوتی ہے اگر اسے وقت پہ دیوانگی کا موقع نہ ملے تو بے وقت بھی ضد کر بیٹھتی ہے۔

 ایک حقیقت کو انکشاف سمجھ لیں۔ ہر عورت پہ جوانی دو بار آتی ہے۔ اس کی دوسری جوانی 40 کے آس پاس آتی ہے۔ وہ رنگ اس کے اصل رنگ ہوتے ہیں، کیونکہ تب وہ ایک مکمل عورت بن چکی ہوتی ہے۔ وہ محبت جس کی توقع اس سے ٹین ایج میں کی جا رہی ہوتی ہے، وہ اصل میں عورت پن کا حسن ہوتا ہے۔ لیکن قفل ہے کھولے کون؟

جب مہرالنسا کی شادی 19 سال کی عمر میں 35 برس کے مرد سے ہو رہی تھی، جیسے ابھی عامر لیاقت حسین کی ہوئی ہے، تب سماج میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ جب وہ ایک بوڑھے مرد کے ساتھ رہتے ذہنی طور پہ بوڑھی ہو رہی تھی، کسی نے علم بغاوت نہیں اٹھایا، لیکن جب اس نے اپنے سے چھوٹی عمر کے لڑکےسے شادی کی تو کہرام مچ گیا۔

گویا اگر تو وہ چور دروازے تلاش کر لیتی تو سماج ساتھ ہوتا۔ اگر وہ آہیں بھر کر سابقہ شوہر کی یاد میں بے رنگ لباس پہن کر تسبیح تھامے مصلے پر بیٹھی ہوتی تو اس کی بلے بلے ہوتی۔ یا پھر کسی ابتسام جیسے باباجی سے دوسری شادی کر لیتی تو ٹھیک تھا۔ راتوں کو تکیوں میں منہ دے کر کسی انجان کی یاد میں اپنے اکیلے پن اور جبلت کے تقاضوں سے جنگ لڑ رہی ہوتی تو بہت بہادر ہوتی۔

لیکن اگر وہ اپنے لیے ایک من پسند اور سماجی اجازت سے مختلف کسی راہ کا انتخاب کرتی ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔ شادی کا بندھن وہ بھی تھا، شادی کا بندھن یہ بھی ہے۔ عمر کا فرق وہ بھی تھا، عمر کا فرق یہ بھی ہے۔ مگر کہانی یکسر مختلف کیوں؟

اس ڈرامے نے سماج کے اس انتہائی منافق رویے کی بہت عمدگی سے عکاسی کی ہے۔ اس میں ایک عام عورت کے تمام فطری تقاضوں کی عکاسی ہے، ایک عام معاشرے کی عام سوچ کی، ایک عام انسان تک یہ خاص بات پہنچاننے کی۔

اس ڈرامے کو لکھنا دشوار اس لیے تھا کہ ادب عالیہ سے ادب جمالیہ تک مثالی عورت فطرت کے تقاضے اور جبلت کے تماشوں پہ بات نہیں کر سکتی۔ اس کا حق ہم نے ایک ایسی عورت کو دے رکھا ہے جسے ہم برا سمجھتے ہیں، مگر اسی کی مظلومیت کے گیت بھی گاتے ہیں۔

 مکالمے زندگی کا فلسفہ ہیں اور ابتسام کا کردار اس فلسفہ تغیر و جبر کی تشریح کرتا ہے۔ وہ کڑوی گولی کو شوگر کوٹڈ کر دیتا ہے۔

کچھ مکالمے صدیوں کے دبے جذبات کی وجہ سے تیز نشتر کا کام کرتے ہیں:

’خوف خاموش کر دیتا ہے۔‘

’اس لڑکے کے لہجے میں سچائی ہے، آپ کے لہجے میں مجبوری ہے۔‘

’مجھے ایک صحت مند ساتھی اور دوست کی ضرورت تھی۔‘

’صحت مند‘ ذہنی و جسمانی صحت اور دوست نما، جس بات کا خیال ہم رشتہ کرتے ہوئے بالکل نہیں رکھتے۔ لیکن مرد کو پورا حق ہے وہ کم عمر صحت مند عورت کا انتخاب کرے۔ کم عمری کا مطلب ہی صحت مندی لیا جاتا ہے۔ بالکل یونہی ڈراما آپ کو بتا رہا ہے۔ عورت کو بھی یہ پورا حق ہے کہ وہ اپنے جیسے چنچل و دوست نما صحت مند انسان کا انتخاب کرکے زندگی کا ساتھی بنا سکتی ہے۔

مصنف اور ان کی ٹیم نے عمومی سوچ کو بھی ہموار کرنے کی سعی کی ہے۔ جیسے ایک امیر مرد اپنے سے کم امیر عورت کا ساتھی بن سکتا ہے، یونہی ایک غریب مرد بھی ایک امیر عورت کا ساتھی بن سکتا ہے۔

دل بڑا کریں سوچ خود بڑی ہو جائے گی۔

عورت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی، ورنہ دیواروں پہ اشتہار عورت کی کمزوری کے لگے ہوتے۔ 

 یہ سوچ بھی یکسر باطل ہے کہ ہر مرد کو کم عمر عورت سے محبت ہوتی ہے۔ بہت سے مرد بھی شفقت جیسی چھاؤں کے متمنی ہوتے ہیں، مگر سماج نے ان پہ بھی کالی لگامیں ڈال رکھی ہیں۔

عورت امیر مرد سے شادی کرے یا غریب سے مورد الزام عورت ہی کیوں ہے۔

پوری دنیا سے آنے والی بوڑھی سمیت کالی چٹی میموں کے جو قصے فخر سے ہمارے نیوز چینلز دکھا رہے ہیں، وہ کس کھاتے میں پرکھے جائیں گے؟ یہ بندھن قابل فخر کیوں ہیں؟

اپنے ملک کی اپنی عورت کو زندگی کا حق کسی ’میم‘ کی طرح کیوں نہیں ملتا؟

ڈراما ہو یا زندگی جب ٹیبو ٹوٹتے ہیں، بہت کچھ غیر متوازن سا ہو جاتا ہے یا غیر متوازن لگتا ہے۔ یہاں دبے ہوئے سپرنگ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب وہ اچانک ٹوٹتا ہے تو اونچا اچھل کر واپس آ تا ہے۔ ڈرامے میں بھی ایسے کئی غیر متوازن مقام آئے ہیں اور آنے تھے۔ کہانی اور سماجی رویے بدلنے اتنے آسان نہیں ہوتے۔ سب کچھ غیر متوازن سے متوازن کی طرف سفر کرتا ہے۔

قصہ مختصر، عورت کبھی بوڑھی نہیں ہوتی، ورنہ دیواروں پہ اشتہار عورت کی کمزوری کے لگے ہوتے۔ وہ بیوہ ہوتی ہے اور سب مل کر اسے دیوی بنائے پوجنا چاہتے ہیں۔

وہ انسان ہے۔ اس کی تمام جبلتیں انسانی ہیں۔ وہ انسان ہی رہنا چاہتی ہے۔

لہٰذا معاشرے کو اپنی بوڑھی سوچ کو لال لگام دینا ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی