پری زاد کی آخری قسط: ’منگل کی شامیں اب پہلے جیسی نہیں ہوں گی‘

روایتی محبت، گلیمر یا ساس بہو کی سازشوں کے گرد گھومتے ڈراموں سے کافی مختلف ’پری زاد‘ کو آخر اتنی شہرت کیسے ملی اور اس کے سپر ڈوپر ہونے کا کیا راز ہے؟

عینی کے پری زاد کے ساتھ اس دور دراز گاؤں میں رہنے کے فیصلے نے اس کی زندگی بھر کی مایوسیوں، ناکامیوں اور خوف کو ختم کر دیا (تصویر: یوٹیوب سکرین گریب/ ہم ٹی وی)

پاکستانی ڈراما ’پری زاد‘ کی آخری قسط منگل (یکم فروری) کی شب نشر ہوئی تو دل تھوڑا ڈرا ہوا تھا۔

اس انجانے خوف کی وجہ ڈرامے کے مصنف ہاشم ندیم کا ٹریک ریکارڈ تھا یعنی ’خدا اور محبت‘ کی طرح ان کی بیشتر کہانیوں کا اختتام ٹریجڈی پر ہوتا ہے لیکن پاکستان اور دنیا بھر میں دھوم مچانے والے ’پری زاد‘ کی ہیپی اینڈنگ (خوشگوار اختتام) دیکھ کر دل بھی ہیپی ہیپی ہو گیا۔

30 اقساط پر مشتمل یہ ڈراما گہری رنگت والے کردار پری زاد کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، جسے احمد علی اکبر نے نبھایا ہے اور کیا خوب بنھایا ہے کہ لوگ عام زندگی میں بھی پری زاد کی مثالیں دینے لگے ہیں۔

منگل کو ہم ٹی وی پر نشر ہونے سے پہلے اس کی آخری قسط جمعے (28 جنوری) کو سینیما گھروں میں دکھائی گئی تھی، اس لیے اس کے کئی مناظر کی تصاویر پہلے ہی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں اور صارفین اس کے اختتام کے بارے میں بھی باتیں کر رہے تھے لیکن ہم نے ان پر کان نہیں دھرا کیوں کہ اس سے سسپنس کا سارا مزہ کرکرا جو ہو جاتا۔ 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آخری قسط نشر ہونے کے بعد عالمی سطح پر فلموں اور ڈراموں کی ریٹنگ جاری کرنے والے پلیٹ فارم آئی ایم ڈی بی پر پری زاد کو 9.6 کی ریٹنگ ملی ہے جو اس کی کامیابی اور عوامی پسندیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

روایتی محبت، گلیمر یا ساس بہو کی سازشوں کے گرد گھومتے ڈراموں سے کافی مختلف ’پری زاد‘ کو آخر اتنی شہرت کیسے ملی اور اس کے سپر ڈوپر ہونے کا کیا راز ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے نزیک اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا منفرد موضوع تھا جس میں خلوص، محبت، صلہ رحمی کے فقدان کے شکار ہمارے معاشرے میں موجود رویوں، خوبصورتی کے معیار اور دولت کے پیمانے پر رشتوں کو تولنے جیسے عمومی رویوں پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

بامعنی مکالمے اور کہانی کی گہرائی ’پری زاد‘ کی کامیابی کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے لیکن احمد علی اکبر آخری قسط تک شو کے سٹار رہے۔ یہ ڈراما شاید اس قدر کامیاب نہ ہوتا اگر احمد علی اکبر کو اس کردار کے لیے منتخب نہ کیا جاتا۔ انہوں نے یقینی طور پر ’پری زاد‘ سے وہ شہرت حاصل کی ہے جو بہت کم اداکاروں کے حصے میں آتی ہے۔

مومنہ درید کی پروڈکشن اور شہزاد کاشمیری کی ہدایت کاری میں بننے والے اس ڈرامے پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، کہانی بھی سب کو معلوم ہے اس لیے اس کی تفصیل میں جائے بغیر آخری قسط پر ہی تبصرہ کرتے ہیں۔

کیا آخری قسط میں ڈرامے کے ساتھ انصاف کیا گیا؟

آخری قسط کا پہلا حصہ فلیش بیک پر مشتمل تھا جس میں پچھلی تمام اقساط کا خلاصہ پیش کیا گیا۔ 

پری زاد دولت کی چکاچوند، دنیا کی تمام آسائشوں اور طاقت کو ٹھوکر مار کر ایک دور دراز پہاڑی گاؤں میں گمنامی کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن پھر بینائی واپس حاصل کرنے والی قراۃ العین اس کی زندگی میں روشنی بن کر آتی ہے۔

زندگی کے اس موڑ پر پری زاد زندگی میں ایک حقیقی مقصد تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا اور شاید محبت پر اس کا یقین ختم ہو گیا تھا لیکن عینی کے پری زاد کے ساتھ اس دور دراز گاؤں میں رہنے کے فیصلے نے اس کی زندگی بھر کی مایوسیوں، ناکامیوں اور خوف کو ختم کر دیا تھا۔

اور یوں پری زاد کا حیرت انگیز سفر بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ منگل کی شامیں اب پہلے جیسی نہیں ہوں گی جب ہمارا پورا خاندان ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ’پری زاد‘ کا انتظار کرتا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی