ناقدین کا کام یوں ہی کسی ڈرامے یا فلم میں کیڑے نکالنا نہیں ہوتا لیکن کیا کیجیے کہ بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کمزور سکرپٹ ایسا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
جیو انٹرٹینمنٹ کا دعویٰ ہے کہ ڈراما ’خدا اور محبت‘ اس کے کامیاب ترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔
اس کا ثبوت یوٹیوب پر اس کی ہر قسط کو ملنے والے کروڑوں ویوز سے بھی ہوتا ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ناظرین اسے پسند بھی کر رہے ہوں، کم از کم اس کے ٹریجڈی بھرے اختتام سے تو ہر کسی کا دل ضرور ٹوٹ گیا ہو گا۔
سیونتھ سکائی انٹرٹینمینٹ کے بینر تلے بننے والے بڑے بجٹ اور بڑے ستاروں سے مزین اس ڈرامے کے تیسرے سیزن کی آخری قسط جمعے کی شب نشر ہوئی جسے ہضم کرنا بہت مشکل محسوس ہو رہا ہے۔
اس ڈرامے کی ہدایت کاری منجھے ہوئے ڈائریکٹر سید وجاہت حسین نے دی ہے جو ماضی میں ’دو بول‘، ’یاریاں‘ اور ’سلسلے‘ جیسے ڈراموں میں بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
دوسری جانب اس کے مصنف ہاشم ندیم ہیں جن کے قلم سے شہرہ آفاق ڈرامے ’رقص بسمل‘ اور ہم ٹی وی پر جاری انتہائی سبق آموز اور بامعنی ڈرامہ ’پری زاد‘ تحریر ہوا ہے۔ تو اس سب کے باوجود ’خدا اور محبت‘ میں کیا مختلف تھا؟
عالی شان سیٹ، راحت فتح علی خان کی آواز میں عمدہ او ایس ٹی اور فیروز خان، اقرا عزیز، مرزا زین بیگ، جیند خان، نور الحسن، روبینہ اشرف، عثمان پیرزادہ، حنا خواجہ اور دیگر معروف اداکاروں کی موجودگی کی وجہ سے اس ڈرامے کو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں دیکھا جا رہا تھا لیکن میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی خامی اس کا سست سکرپٹ تھا۔
کہانی کا مرکزی خیال اتنا مختصر ہے کہ اسے دو لائنز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
’فرہاد (فیروز خان) نامی ایک غریب لڑکے کو امیر زادی اور پیروں کے خاندان کی لڑکی ماہی (اقرا عزیز) سے ایک شادی کی تقریب میں پیار نہیں بلکہ عشق ہو جاتا ہے لیکن غریبی اور رتبے کی دیوار حائل ہونے کے بعد فرہاد عشق کا جوگ لے کر ایک مزار کا مجاور بن جاتا ہے اور بالآخر ظالم سماج کی جانب سے کیے گئے ستم کے بعد مزار پر ہی موت کو گلے لگا لیتا ہے اور اسے مرتا دیکھ کر ہیروئن کی بھی روح پرواز کر جاتی ہے۔‘
اس بیچ جو کچھ ہوا اسے شیطان کی آنت کی طرح کھینچ کھینچ کر 39 قسطوں تک گھسیٹا گیا۔
ماہی کی زبردستی یا شاید رضامندی سے ہونے والی شادی (کیوں کہ اس میں بھی ابہام تھا) سے لے کر اس کی عدت اور مزار پر جوگ لیے بیٹھے فرہاد سے اس کا آمنا سامنا ہونے میں 15 سے زیادہ قسطیں گزار دی گئیں۔
مصنف یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ شادی کی تقریب میں ایک مختصر سی ملاقات کے بعد عشق کیسے اتنا سر چڑھا کہ ہیرو نے والدین، بہن بھائی اور دوستوں کو چھوڑ کر دنیا ہی سے تعلق توڑ لیا؟
کیا حقیقی زندگی میں ایسا ممکن ہے اور بطور مجاور عشق مجازی سے عشق حقیقی کی جانب یہ سفر کیوں کر ممکن ہوا جب کہ وہ اپنی آخری سانس تک اسی لڑکی کی راہ تک رہا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈرامے کی کہانی اس قدر سست روی سے چل رہی تھی کہ اس پر کئی میمز بھی بنے۔
سست روی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آخری دو قسطوں میں زخمی فرہاد کے ہسپتال سے واپس مزار جانے اور ماہی کے اپنے والدین کے گھر سے اسی مزار تک پہنچنے میں دو قسطیں گزار دی گئیں۔
ڈرامے میں ایک اور جھول شروع کی قسطوں میں فرہاد کی موت تھا جس کا بھید آخر تک نہیں کھل پایا کہ آخر فرہاد کی جگہ کون اور کیوں مارا گیا تھا۔
ڈرامے کا آخری سین بھی مضحکہ خیز تھا جب ماہی کے والدین کی جانب سے رضامندی ملنے کے باوجود فرہاد اور اس کی محبوبہ کو خوامخواہ ہی دنیا سے جبری رخصت کر دیا گیا۔
بقول میری بیگم کے ’ایسا انجام تو کسی تھرڈ کلاس لالی وڈ فلم کا بھی کبھی نہیں دیکھا۔‘
خدا اور محبت دیکھ کر بار بار میرے ذہن میں یہ سوال آتا رہا کہ واقعی اسے ہاشم ندیم نے ہی تحریر کیا ہے یا ’رقص بسمل‘ اور ’پری زاد‘ کے مصنف کوئی اور ہیں؟