’عشق ہے‘ میں عشق کہاں تھا؟

ابتدائی چند قسطوں میں کسی بھی ڈرامے کو جج کرنا ناانصافی ہوتی ہے لیکن مصنفہ ریحانہ آفتاب کے پہلے دو فلاپ ڈرامے ’خواب نگر کی شہزادی‘ اور ’فریاد‘ کا ٹریک ریکارڈ دیکھ کر میرا ماتھا پہلے ہی ٹھنک گیا تھا۔

(تصویر: بگ بینگ انٹرٹینمنٹ/ انسٹا گرام)

خدا خدا کر کے منگل کی شب ڈراما سیریل ’عشق ہے‘ صبر آزما 36 اقساط کے بعد اختتام پذیر ہو ہی گیا۔ 

صبر آزما اس لیے کہہ دیا کیوں کہ ہر ہفتے اس کی دو لگاتار ڈبل ایپی سوڈز کو برداشت کرنا کافی مشکل تھا، وجہ اس کی کاسٹنگ یا ڈائریکشن میں خامیاں نہیں بلکہ اس ‘ساس بہو‘ ٹائپ اور ان کی سازشوں سے لبریز سکرپٹ نے ہی اس کو بہت سوں کے لیے ’ناقابل برداشت‘ بنا دیا تھا۔

دو ماہ قبل جب اے آر وائے ڈیجیٹل پر ’عشق ہے‘ کا پرومو اور او ایس ٹی چلا تو یہ کافی جاذب نظر محسوس ہوا۔ سوچا دو تین مہینے اچھے ڈرامے کے ساتھ شام کا یہ وقت بھی اچھا گزر جایا کرے گا۔

ابتدائی چند قسطوں میں کسی بھی ڈرامے کو جج کرنا ناانصافی ہوتی ہے لیکن مصنفہ ریحانہ آفتاب کے پہلے دو فلاپ ڈرامے ’خواب نگر کی شہزادی‘ اور ’فریاد‘ کا ٹریک ریکارڈ دیکھ کر میرا ماتھا پہلے ہی ٹھنک گیا تھا۔

چوں کہ خواتین کو ساس بہو کی سازشوں والی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے تو بیگم کے ساتھ مجبوراً مجھے بھی ہر منگل دو گھنٹے اس ڈرامے کی دو اقساط کو بادل نخواستہ ہی صحیح لیکن دیکھنا پڑتا تھا۔ تاہم اتنے کمزور اور بے معنی سکرپٹ پر تو میری بیگم بھی چیخ اٹھی۔

جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس ڈرامے کا موضوع محبت کی انتہا یعنی عشق ہے لیکن اس کی آخری اقساط میں ہیرو شاہ زیب (دانش تیمور) کو اپنی بیوی اسرا (منال خان) کے کردار پر صرف اس وجہ سے شک ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کی ماں نفیسہ بیگم (صبا فیصل) اپنی دوسری بھانجی نمرہ کو بھی اپنی بہو بنانے کے خواب سجائے ہوتی ہے۔

سمیرا پہلے ہی ان کے گھر شاہ زیب کے چھوٹے بھائی رضا (سجاد پال) کی بیوی کی حیثیت سے ان کے گھر آ چکی ہوتی اور یہیں سے خالہ بھانجیوں کی سازشوں کا آغاز ہوتا ہے۔

شاہ زیب کی اسرا سے شادی کی بھی روداد سن لیجیے۔ موصوف اسرا کے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد (جس کا کوئی پس منظر بھی بیان نہیں کیا گیا) اسے والدین کی مرضی سے ہونے والی شادی کے عین موقعے پر سیلون کے باہر سے دلہن کے لباس میں اغوا کر لیتے ہیں اور اسی رات اپنی کن پٹی پر پستول رکھ کر اس سے نکاح بھی کرا لیتے ہیں۔

یہ بات اسرا کے باپ پر بجلی بن کر گرتی ہے جو اگلے دن دل کا دورہ پڑنے سے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اسرا اس زبردستی کی شادی اور والد کی موت سے دل برداشتہ ہو جاتی ہے لیکن شاہ زیب کا ایک اچانک ایکسیڈنٹ، جن کی گاڑی محض فٹ پاتھ سے ٹکراتی ہے، نہ صرف موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ جاتے ہیں بلکہ اسرا کے دل سے ہمیشہ کے لیے اترنے سے بھی۔

کہانی اتنی کمزور تھی کہ اس کو ہر نیا موڑ دینے کے لیے ایک نہیں تین تین ایکسیڈنٹ کی ضرورت پڑی۔ پہلے حادثے کے بارے میں تو اوپر ذکر ہو چکا ہے، اب دوسرے ایکسیڈنٹ کا احوال بھی ملاحظہ کر لیں۔

پہلے حادثے کے بعد جب اسرا عین شادی کے دن اپنے اغوا اور زبردستی کے نکاح کو خوشی خوشی قبول کر کے سسرال پہنچتی ہے تو کہانی کو نیا موڑ دینے کے لیے نفیسہ بیگم کی بھانجیوں کے والدین ایک جان لیوا حادثے میں محض اس لیے مار دیے جاتے ہیں تاکہ وہ خالہ کے گھر مستقل طور شفٹ ہو جائیں اور خالہ بھانجیاں مل کر اسرا کے خلاف سازشیں کر سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اسرا کی شادی کے دن دولہا بنے حارث (حماد شعیب) کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہوتا ہے جن کی بَلی تیسرے حادثے میں دی گئی کیوں کہ اب کہانی کو بڑھانے کے لیے مصنفہ کے پاس ایک اور ایکسیڈنٹ کے علاہ کوئی اور راہ سجھائی نہیں دیتی اس طرح حارث کو بھی ایک غیر متوقع حادثے میں ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں اس کا ضمیر اچانک سے جاگ جاتا ہے اور وہ شاہ زیب کو اس کی ماں، سمیرا اور نمرا کی اسرا کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے۔

میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ عاشق صاحب ان سازشوں کے بعد نہ صرف اسرا کو گھر سے نکال دیتے ہیں بلکہ مضحکہ خیز طور پر اپنی تازہ تازہ یتیم  ہونے والی کزن نمرہ سے شادی کے لیے بھی راضی ہو جاتے ہیں۔

یہ دیکھ کر تو ہمارا اپنے بال نوچنے کو دل چاہا لیکن خود کا خون جلانے کا کیا فائدہ۔ مختصراً ڈرامے کا اختتام یوں ہوا کہ شاہ زیب اسرا کے خلاف ہونے والی سازشوں کے انکشاف کے بعد عشق کی نئی معراج کو چھوتے ہوئے اسرا سے معافی کا طلب گار بن کر اپنی ماں اور گھر بار چھوڑ دیتا ہے اور ڈرامے کے آخری سین میں اسرا اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے معاف بھی کر دیتی ہے۔

یوں اس 36 طویل اقساط پر بنی ڈراما سیریل جس کی کہانی کو تین تین حادثوں سے سہارا دیا گیا، کی ’ہیپی اینڈنگ‘ ہو گئی۔

یہ ریویو پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر سکرپٹ اتنا ہی خراب تھا تو ’عشق ہے‘ کو کم ویوورشپ ملی ہو گی لیکن ڈرامے کی ایک ایک قسط کو ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ بار صرف یو ٹیوب پر دیکھا گیا ہے۔ 

اس کا جواب فہد مصطفیٰ کے ’بگ بینگ انٹرٹینمنٹ‘ پروڈکشن ہاؤس اور اس کی بڑے ستاروں پر مشتمل کاسٹ ہے۔ راحت فتح علی خان کی آواز میں ڈرامے کے خوبصورت او ایس ٹی نے بھی ڈرامے کی مقبولیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

’عشق ہے‘ کے ہدایت کار آبس رضا کے متنازع ڈرامے ’جلن‘ کو بھی شوبز کریٹکس کی جانب سے شدید تنقید اور ’لو ریٹنگ‘ دیے جانے کے باوجود اسی طرح لاکھوں کروڑوں وویوز ملتے تھے جس کی وجہ وہ شاید خود بھی نہیں جان پائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی