’پیامِ محبت بنامِ کابل‘

پاکستان اور افغانستان کے دو گلوکاروں زیب بنگش اور شمالی افغان نے دری زبان میں ایک گانا جاری کیا ہے جس کا نام ’یار دمی بشنو‘ یعنی ’پیامِ محبت، بنامِ کابل‘ ہے۔

اس گانے کی کمپوزیشن کابل کے ایک مشہور موسیقار استاد غلام دستگیر شیدا کی ہے(تصویر: حسن کاظمی)

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد موسیقی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور وہاں سے آلاتِ موسیقی توڑے جانے کی خبریں مل رہی ہیں، زیادہ تر فنکار یا تو ملک چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک پاکستانی اور افغان گلوکار نے موسیقی کی زبان میں کابل کے نام پیام محبت بھیجا ہے۔

پاکستان کی نامور گلوکارہ زیب بنگش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے شمالی افغان نے دری زبان میں ایک گانا جاری کیا ہے جس کا نام ’یار دمی بشنو‘ یا اردو میں ’پیامِ محبت، بنامِ کابل‘ جسے انگریزی میں ’لؤ لیٹرز ٹو کابل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

زیب بنگش گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے علاوہ بالی وڈ کی فلموں کے لیے بھی گانے گا چکی ہیں جبکہ شمالی افغان کم سنی ہی میں کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو اس گانے کا پس منظر بتاتے ہوئے زیب بنگش نے کہا کہ کوک سٹوڈیو میں ان کا شمالی افغان کے ساتھ اشتراک پر گانے کا منصوبہ تھا مگر کرونا نے اس پر پانی پھیر دیا۔ پھر گذشتہ برس کے آخر میں جب شمالی افغان کابل آئے تو انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا اور ان دونوں نے افغانستان کی کلاسکی موسیقی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ٹھانی۔

اس سلسلے میں انہوں نے تین گانے بنائے جس میں ایک دری زبان میں اور دو پشتو زبان میں ہیں۔

یہ گانا ایک عاشق کی جانب سے اپنے معشوق کے فراق میں ایک پردرد پیغام ہے جس میں وہ اس کی توجہ کا طالب ہے اور اسے کہہ رہا ہے کہ وہ اس پر توجہ دے، اس پر رحم کرے اور اس کی آہ و فغاں کو کم از کم سن تو لے۔

زیب بنگش نے بتایا کہ اس گانے کی کمپوزیشن کابل کے ایک مشہور موسیقار استاد غلام دستگیر شیدا کی ہے، جو متعدد افغان گیتوں میں ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی کا آہنگ لے کر آئے تھے۔

زیب نے بتایا کہ وہ اس گانے کے ذریعے ایک خوبصورت چیز سامنے لانے کی خواہشمند تھیں، کیونکہ جب کسی علاقے میں کوئی کشمکش ہوتی ہے تو لوگ اسے صرف اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی تاریخ و ثقافت کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد وہاں پیدا ہونے والی صورتِ حال نے کے تناظر میں زیب بنگش نے بتایا کہ جب انہوں نے لوگوں کو بےگھر ہوتے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ ایک مرتبہ پھر افغانستان ایک خبر کی پٹی بن کر رہ جائے گا اور اب وہاں سے صرف اسی قسم کی خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔ اس ضمن میں انہوں نے سوچا کہ اس دوران کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جس کا تعلق ثقافت، تاریخ اور روحانیت سے ہو، اسی لیے یہ گانا اس وقت جاری کیا گیا اگرچہ اس سے پہلے ان کا ارادہ اسے اکتوبر کے آخر میں جاری کرنے کا تھا اور اب اس سلسلے کے مزید دو پشتو گانے بھی ستمبر ریلیز کیے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیب بنگش کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بسنے والے فنکاروں کے لیے یہ وقت خاص کر بہت ہی مشکل ہے، یہ سلسلہ آج سے نہیں اسّی کی دہائی سے چلا آرہا ہے جب فنکاروں کو افغانستان چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینا پڑی تھی۔

’اس طرح کے حالات میں سب سے زیادہ متاثر فنکار ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے کا سب سے حساس طبقہ ہوتے ہیں، تاہم وہی سب سے لچک دار بھی ہوتے ہیں جو واپس اپنی اصل کی جانب لوٹ سکتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افغان فنکاروں کے لیے خاص طور پر انتہائی مشکل وقت ہے اس لیے ان کی دعا ہے کہ افغانستان اور افغان عوام کو امن و سلامتی ملے، ’میں ایک فن کار ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ میرا تعلق عوام سے رہے‘۔

زیب بنگش نے کہا کہ ’آرٹ کو کسی بھی صورت دبایا نہیں جاسکتا، اسے جتنا زیادہ دبایا جاتا ہے، یہ اتنا ہی تیز ابھر کر آتا ہے، جب لوگوں کو ایک خوبصورت چیز ملے گی تو وہ ردِ عمل تو دیں گے، یہ فطری امر ہے کچھ بھی کرلیا جائے، کلچر کبھی ختم نہیں ہوتا، نہ ہی ہوسکتا ہے‘۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن