ہزارگی زبان کا فارسی سے کوئی تعلق نہیں؟

پاکستان، ایران اور افغانستان میں رہنے والے ہزارہ قبائل کی زبان کو جہاں معدومی کا سامنا ہے وہیں اب یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ یہ فارسی نہیں بلکہ ایک الگ ہی زبان ہے۔ 

ہزارگی زبان پر کام کرنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ فارسی نہیں بلکہ ترک اور منگولوں کی زبان ہے جس پر تحقیق کرنے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا جا چکا ہے۔  (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان، ایران اور افغانستان میں رہنے والے ہزارہ قبائل کی زبان کو جہاں معدومی کا سامنا ہے وہیں اب یہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ یہ فارسی نہیں بلکہ ایک الگ ہی زبان ہے۔ 

ہزارگی زبان پر کام کرنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ فارسی نہیں بلکہ ترک اور منگولوں کی زبان ہے جس پر تحقیق کرنے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا جا چکا ہے۔ 

محمد علی  ہزارگی زبان کی ترویج پر کام کرنے والی اکیڈمی کے چیئرمین ہیں، جن کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے معدومی کے خطرے سے دوچار زبانوں کی فہرست میں ہزارگی زبان کا شامل ہونا باعث  تشویش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس زبان کو بچانے کے لیے کام شروع کیا گیا ہے۔

محمد علی کے مطابق: ’اس زبان کو درپیش خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہزارگی زبان کا اصل تعلق کہاں سے ہے؟ اور تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ فارسی کا حصہ نہیں ہے ۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جب میں نے یہ بات کی تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور ہمارے اپنے لوگوں نے مخالفت شروع کر دی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 محمد علی کے بقول فونولوجی، سینٹیکس کے حوالے سے یہ ثابت ہے کہ ہزارگی، فارسی کا حصہ نہیں بلکہ اس کا تعلق منگول اور ترک سے ہے جس کو ہمارے اپنے لوگ ماننے کو تیار نہیں۔ 

واضح رہے کہ ہزارہ قوم  پاکستان، افغانستان اور ایران میں بستی ہے جو فارسی سے ملتی جلتی زبان بولتے ہیں اور اب تک لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ فارسی زبان کا ہی حصہ ہے۔ 

محمد علی کے مطابق ’ہم نے مخالفت کے باوجود اپنی تحقیق جاری رکھی اور مختلف فورمز پر بھی اس بات کو اجاگر کیا اور آج لوگوں کو یہی سمجھا رہے ہیں کہ آپ فارس سے نہیں بلکہ ترک اور منگول نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ دونوں قومیں فارسی نہیں بولتی ہیں۔‘

محمد علی  کا دعویٰ ہے کہ ’ہزارگی زبان میں بنیادی الفاظ، رشتہ داروں، کیڑے مکوڑں اور جڑی بوٹیوں کے نام ترک اور منگول میں ہیں جبکہ دیگر الفاظ جو فارسی کے ہیں ان میں اتنی صوتی تبدیلی آئی ہے کہ اگر ان کو اصل حالت میں فارسی بولنے والوں کے سامنے رکھا جائے تو وہ بھی نہیں سمجھیں گے۔‘ 

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری کوششوں سے اب لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ہزارگی ایک الگ زبان ہے جس کے لیے ہم محفل مشاعرہ، سیمینارز کرتے ہیں جس میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ہزارگی کیوں فارسی کا حصہ نہیں، اسی سلسلے میں ہزارہ ثقافت کے دن کا انعقاد بھی کیا گیا تاکہ لوگوں کو اپنی زبان سے آگاہی مل سکے۔‘ 

یہ بھی پڑھیے: زیرِ عتاب ہزارہ قوم کے ’ثقافتی دن‘ کا احوال

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے لوگ آباد ہیں۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے باعث انہیں فرقہ واریت کا سامنا ہے اور اب تک ان کے کئی لوگ مارے بھی جاچکے ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ کوئٹہ کے دو مخصوص علاقوں تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔  

محمد علی پرامید ہیں کہ لوگ اس بات کو تسلیم کر لیں گے اور اپنی زبان کی حفاظت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی افغانستان، ایران اور آسٹریلیا سے اس حوالے سے مدد مل رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب