چاغی: فائرنگ واقعات اورہلاکت پر بی این پی کی احتجاجی کال

احتجاج کرنے والے شہریوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

چاغی میں فائرنگ کے مبینہ واقعات میں ایک ڈرائیور کی ہلاکت اور کئی شہریوں کے زخمی ہونے کے خلاف منگل 19 اپریل 2022 کو احتجاج کیا جا رہا ہے (تصویر: فاروق بلوچ)

ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی کے افغان سرحد سے متصل علاقے ڈھک میں مبینہ طور پر فائرنگ کے ایک واقعے میں ڈرائیور حمیداللہ کی ہلاکت کے بعد احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ضلعے میں منگل کے روز سیاسی جماعتوں کی کال پر دالبندین اور چاگئے میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی اور تمام کاروباری مراکز بند رہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے احتجاجاً وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

منگل کو وفاقی کابینہ کی حلف برداری میں بھی بی این پی نے شرکت نہیں کی تھی۔

ڈرائیور حمیداللہ 15 اپریل 2022 کو نوکنڈی کے علاقے ڈھک میں پاک افغان سرحد کے قریب فائرنگ کے مبینہ واقعے میں ہلاک ہوئے تھے جس کے خلاف سرحد سے سمگلنگ کرنے والے ڈرائیوروں اور شہریوں نے نوکنڈی میں احتجاج کیاتھا۔

نوکنڈی میں احتجاج کے دوران مبینہ فائرنگ سے 8 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ واقعے کے خلاف گذشتہ دنوں بھی تحصیل چاگئے میں شہریوں نے احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے شہریوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فائرنگ کے واقعات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ممبر قومی اسمبلی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم  نے کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی بلوچوں کا خون بہایا گیا جو ابھی تک خشک نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’جب ہمارے دوستوں نے اسمبلی کے سیشن سے بائیکاٹ کیا تو وزیراعظم شہباز شریف نے ہمیں بلایا اور ہم نے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اوران کے سامنے  یہ معاملات رکھے انہوں نے کہا کہ آپ حلف لے لیں۔‘

سردار اختر مینگل نے بتایا کہ ’ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم معذرت چاہتے ہیں کیوں کہ جب تک ان واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جاتا اور فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی میرا اور میرے ساتھیوں کے لیےحلف لینا مشکل ہوگا۔‘

اختر مینگل نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی کہ کابینہ  بننے کے بعد جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے گا اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔

دوسری جانب ممبر قومی اسمبلی اور بی این پی کے رہنما محمد ہاشم نوتیزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی جماعت نے وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیوں کیا۔

محمد ہاشم نوتیزئی نے کہا کہ ’حکومت کا اتحادی ہونے کے بعد ہمیں وفاقی حکومت میں دو وزارتیں اور گورنر بلوچستان کا عہدہ دینے کا کہا گیا تھا لیکن ہم نے حالیہ واقعات کے بعد یہ قبول نہیں کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کی پالیسی واضح ہے۔ انہوں نے چاغی کے واقعے کے خلاف اسمبلی میں احتجاج کیا اور واک آوٹ بھی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارا مطالبہ ہے کہ نوکنڈی اور چاگئے میں فائرنگ کے واقعات کے حوالے سےجوڈیشنل انکوائری تشکیل دی جائے۔ جو اس بات کا پتہ لگائے کہ کون لوگ فائرنگ میں ملوث ہیں اور لوگوں میں نفرت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔‘

ہاشم نوتیزئی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں روزگار کے ذرائع سرحد سے کاروبار کرنا ہے اور عوام کو روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔‘

ہاشم کہتے ہیں کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ پرتشدد واقعات کا خاتمہ، سرحد سے ٹوکن سسٹم ختم اور لوگوں کو آزادانہ کاروبار کرنے دیا جائے۔

دوسری جانب بی این پی کی کال پر آج بلوچستان بھر میں چاغی میں شہریوں پر فائرنگ کے واقعات کے خلاف مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔

ٹریبونل آف انکوائری کا قیام

اس معاملے میں تازہ ترین پیش رفت کے مطابق حکومت بلوچستان کی جانب سے صوبائی حکومت کے گریڈ 21 کے سینیئر ترین آفیسر اور سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو ارشد مجید پر مشتمل ٹریبونل آف انکوائری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

بلوچستان ٹر یبیونلز آف انکوائری آرڈننس 1968 کے تحت قائم ٹریبونل آف انکوائری 14 اور 18 اپریل کو ضلع چاغی میں رونما ہو نے والے فائرنگ کے واقعات کے تمام پہلوؤں اور محرکات کا جائزہ لے کر واقعات کی ذمہ داری کا تعین کرئے گا۔

ٹریبونل مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنی سفارشات بھی مرتب کرے گا اور 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرنے کا پابند ہوگا۔

جے آئی ٹی کی تشکیل

ادھر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران چاغی کے واقعے کے حوالے سے وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے جس نے منگل کو چاغی کا دورہ کیا ہے۔

عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ ’اگر جے آئی ٹی کی انکوائری سے مطئمن نہیں ہوئے تو ہم عدالتی تحقیقات کروائیں گے۔ واقعہ بہت افسوسناک ہے۔ کوشش ہے کہ اس پرجلد فیصلہ آجائے، زخمیوں کا اگر یہان علاج ممکن نہیں تو انہیں کراچی بھجوا دیا جائے اور ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے لواحقین کو بھی معاوضہ دیا جائے گا۔‘

دوسری جانب چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا نے منگل کے روز ضلع چاغی کا دورہ کیا۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ محمد ہاشم غلزئی، آئی جی پولیس محسن حسن بٹ بھی ان کے ہمراہ تھے۔

 اُدھر صوبائی مشیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں چاغی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے ہنگامی بنیادوں پر رپورٹ طلب کی ہے۔

صوبائی مشیر داخلہ نے یقین دلایا ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے لواحقین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے گا۔

انہوں نے چاغی کے علاقے میں فائرنگ کے زخمیوں کو ٹراما سینٹر کوئٹہ میں علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کی ہدایت کی اور چاغی کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرسکون رہتے ہوئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔

یاد رہے کہ فائرنگ کے واقعات کے خلاف بڑی تعداد میں شہریوں نے تحصیل چاگئے میں منگل کو دھرنا دیا تھا جسے بعد میں انتظامیہ نے قبائلی رہنما ملک کریم داد محمد حسنی و دیگر سے کامیاب مذاکرات کے بعد  ختم کرایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان