امریکہ کا یوکرین کے لیے مزید 70 کروڑ ڈالر فوجی امداد کا اعلان

یوکرینی حکام کے مطابق اتوار کی رات یوکرینی صدر اور امریکی وزرا کے درمیان کیئف میں ملاقات ہوئی جو یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس سطح کی پہلی ملاقات تھی۔

اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے یوکرین کے لیے 70 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکی سفارت کار رواں ہفتے سے آہستہ آہستہ یوکرین واپس جانا شروع کریں گے۔

روس کے یوکرین پر حملے کے تیسرے ماہ کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن یوکرین کے دورے پر تھے، جس کی تفصیلات خفیہ رکھی گئیں اور امریکہ نے تب ہی ان کے دورے کی تصدیق کی جب وہ یوکرین سے جا چکے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی کے مشیر اولیکسی اریسٹووچ نے بتایا کہ صدر نے اتوار کو امریکی عہدیداروں سے ملاقات کی۔

فروری میں روسی حملے سے قبل ہی امریکہ نے یوکرین سے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے تھے۔ تاہم وہ اسے ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرنے والا سرفہرست ملک ہے اور ماسکو پر پابندیوں کے پیچھے بھی ہے۔  

امریکی عہدیداروں نے یوکرین کے لیے 70 کروڑ ڈالر فوجی امداد کا وعدہ کیا، جس میں 30 کروڑ اسے ضروری ہتھیار خریدنے میں مدد کریں گے۔

باقی رقم یوکرین کے علاقائی حامیوں کو جائے گی، جنہیں یوکرین کو اپنے ہتھیار دینے کے بعد اپنے لیے مزید خریدنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ بائیڈن حکومت کے دور میں اب تک یوکرین کو چار ارب ڈالر تک فوجی امداد دے چکا ہے جبکہ جمعرات کو بھی اس نے ملک کے مشرق میں روسی فوج سے لڑائی کے لیے یوکرین کے لیے 80 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا تھا۔

یوکرین پر حملے کے بعد یہ امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں اور یوکرین کے صدر کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات تھی۔

اس ملاقات کے بعد پیر کو پولینڈ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ روس اس جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ’ناکام ہوگیا ہے‘ جبکہ یوکرین ’جیت گیا ہے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کا کہنا تھا: ’اس ملاقات کا مقصد ان چیزوں کے بارے میں بات کرنا تھا جو ہمیں یہ جاری جنگ جیتنے میں اور مستقبل کی تعمیر میں مدد کریں۔‘

وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ یوکرین کو یقین ہے کہ وہ جیت سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ ہم جیت سکتے ہیں، وہ جیت سکتے ہیں اگر ان کے پاس صحیح ساز و سامان اور تعاون ہو۔ ہم ان کی مدد کے لیے جو کر سکتے ہیں کریں گے، اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔‘

ملاقات سے قبل زیلنسکی کا اپنی ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’آج یوکرین کے عوام متحد اور مضبوط ہیں اور یوکرین اور امریکہ کی دوستی مضبوط ترین ہے۔‘

صدارتی مشیر اولیکسی اریسٹووچ نے اس ملاقات کے دوران دیے جانے والے ایک یوٹیوب انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ امریکی وزرا اور یوکرینی صدر کے درمیان یہ ملاقات جاری ہے۔

ان کا مزيد کہنا تھا:  ’یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے جائیں کیوں کہ جب تک ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہوں گے روز ایک بوچا کا واقعہ ہو گا۔‘ ان کا اشارہ اقوام متحدہ اہلکاروں کے اس بیان کی جانب تھا جس کے مطابق انہوں نے بوچا میں 50 شہریوں کی ہلاکتوں کو ریکارڈ کیا ہے۔

ان کے مطابق ’امریکی عہدیدار یہاں نہ آتے اگر وہ ہتھیار دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

ملاقات سے قبل جاری بیان میں یوکرین صدر نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب دیکھ رہے ہیں تاکہ سکیورٹی کی ضمانت اور اسلحے کے حوالے سے نتائج سامنے آ سکیں۔

ان کا کہنا تھا:  ’آپ آج ہمارے پاس خالی ہاتھ نہیں آ سکتے۔ ہم کسی مخصوص تحفے یا کیک کی امید نہیں کر رہے۔ ہم مخصوص اشیا اور مخصوص ہتھیاروں کی امید رکھتے ہیں۔‘

یاد رہے اس سے قبل زیلنسکی اور امریکی نائب صدر کمالا ہیرس کی ملاقات جرمنی کے شہر میونخ میں ہوئی تھی جو روس کے یوکرین پر حملے سے پانچ دن قبل 19 فروری کو ہوئی تھی۔

گوکہ مغربی ممالک یوکرین کی مدد کے لیے فوجی سامان بھیجتے رہے ہیں لیکن یوکرین صدر کا اصرار ہے کہ ان کے ملک کو مزید بھاری ہتھیاروں کی ضرورت ہے جن میں دور تک مار کرنے والا فضائی دفاعی نظام اور جنگی طیارے شامل ہیں۔

خیال رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کو دو ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے، اس دوران ہزاروں اموات ہوئیں، لاکھوں شہری بے گھر ہوئے اور شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ روس یوکرین میں اپنے اقدامات کو ’خصوصی آپریشن‘ قرار دیتا ہے۔

روسی نے کئی ہفتوں سے یوکرین کے بڑے شہروں پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے تاہم اسے سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور فی الحال روسی افواج دارالحکومت کیئف پر قبضہ نہیں کر پائی ہیں۔

یوکرینی صدر اس سے قبل امریکی کانگریس، جاپانی نیشنل ڈائٹ، برطانوی اور آسٹریلوی پارلیمانوں اور اسرائیلی نیسیٹ میں تقریروں میں اتحادیوں سے مدد اور تعاون کی درخواست کرچکے ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے مارچ میں بیان جاری کیا تھا کہ روسی حملے کے بعد سے اب تک ایک کروڑ افراد، آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ، یوکرین میں اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق گھر بار چھوڑنے والوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 34 لاکھ ہمسایہ ممالک، زیادہ تر پولینڈ چلے گئے ہیں۔‘

قبل ازیں مارچ کے پہلے ہفتے میں کریملن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس نے یوکرین کو بتا دیا ہے کہ اگر وہ شرائط پوری کر دے تو ’ایک لمحے‘ میں جنگ روک دی جائے گی۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ یوکرین شرائط کے بارے میں جانتا ہے ’اور انہیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ سب ایک لمحے میں روکا جا سکتا ہے۔‘

روس کے مطالبات میں یوکرین کا فوجی کارروائی روکنا، غیر جانب داری کو حصہ بنانے کے لیے آئین میں تبدیلی، کرائمیا کو روس کا علاقہ تسلیم کرنا اورعلیحدگی پسند جمہوریہ دونیتسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پرتسلیم کرنا شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا