پاکستان کے سب سے بڑے اور سیاسی اعتبار سے اہم صوبہ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف برداری کیس میں آج چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ حلف میں تاخیر آئین کے خلاف ہے۔ عدالت کا استفسار تھا کہ 25 دنوں سے صوبے میں کوئی حکومت موجود نہیں لہذا کل یعنی جمعرات کو گورنر یا کسی نمائندے کے ذریعے حلف لیں۔
عدالت نے یہ فیصلہ گذشتہ روز سماعت مکمل ہونے پر محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔
نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے پیر (25 اپریل) کو لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے گذشتہ ہفتہ گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ کا حلف نہ لیے جانے پر صدر پاکستان کو ہدایات بھجوائیں کہ حلف کے لیے نمائندہ مقرر کریں مگر انہوں نے نمائندہ مقرر نہیں کیا بلکہ گورنر کی جانب سے انتخابات کو متنازع قرار دینے کے خط پر ان کے موقف کو تسلیم کر لیا۔
حمزہ شہباز کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیراعظم سے اس معاملے پر تجاویز مانگی گئیں جو کہ وقت ضائع کرنے کی کوشش ہے لہذا عدالت وزیراعلیٰ سے حلف لینے کے لیے نمائندہ مقرر کیے جانے کے احکامات پر عمل درآمد کروائے۔‘
گذشتہ روز (26 اپریل کو) سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے صدر پاکستان کی جانب سے ہدایات لے کر عدالت میں جمع کروائیں، جن میں بتایا گیا تھا کہ صدر پاکستان نے معاملے پر رائے وزیراعظم پاکستان کو بھجوا دی ہے۔
جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت نے حلف لینے سے متعلق صدر کو ہدایات بھجوائیں کہ گورنر حلف نہیں لینا چاہتے تو کوئی اور نمائندہ مقرر کریں، لیکن انہوں نے وزیراعظم سے تجاویز مانگ لیں اور اسی دوران گورنر نے بھی صدر اور وزیراعلیٰ کا انتخاب متنازع ہونے کا خط لکھا، جنہیں صدر نے بھی تسلیم کرلیا۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ صدر مملکت بھی آئین کے تحت حلف کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ عثمان بزدار کے بعد پنجاب 25 روز سے بغیر وزیر اعلی چل رہا ہے۔
مزید کہا گیا کہ حلف میں رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے متبادل حل بھی دیا گیا ہے حکومت بنانے کے آئین کے آرٹیکل کہتے ہیں کہ حلف جلد ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’ایک صوبہ بغیر کسی وجہ کے وزیراعلیٰ اور کابینہ کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔ کیا یہ آئینی ہے؟‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’عدالت نے کوشش کی کہ صدر پاکستان کو مکمل احترام دیا جائے لیکن مجھے لگتا ہے انہیں یہ بات پسند نہیں آئی۔‘
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ گورنر نے چھ صفحات پر مشتمل اعتراضی خط صدر کو بھیجا اور صدر نے گورنر پنجاب کی سفارشات وزیراعظم پاکستان کو بھیجیں۔ گورنر پنجاب، صدر اور وزیراعظم کی تمام بات چیت ریکارڈ پر ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی تاخیر نہیں کی جا رہی، صدر پاکستان نے عدالتی حکم موصول ہوتے ہی وزیراعظم سے معاونت مانگی۔‘
سرکاری وکیل نے مزید بتایا کہ ’وزیراعظم کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور صدر آئین کے تحت ہی تمام اقدامات کریں گے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے بعد وزیر سے معاونت لینا ضروری تھا؟ عدالتی حکم میں ہدایات صدر پاکستان کے لیے تھیں۔ ’بتائیں کس قانون کے تحت یہ سارا معاملہ چل رہا ہے؟ کس قانون کے تحت گورنر یہ دیکھے گا کہ الیکشن کیسے ہوا؟ یہ قانون کے ساتھ پچھلے 25 دنوں میں کیا ہو رہا ہے؟‘
جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور ایوان صدر کی جانب سے عدالتی ہدایات کے باوجود عمل نہیں ہوسکا۔ ’مجھے بتائیں کہ صدر نے اس صوبے کے لیے کیا کیا؟ ایک صوبہ اتنے دنوں سے بغیر وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے؟‘
عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کا موقف تھا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے جن اداروں کو فریق بنایا گیا ہے اس وجہ سے درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ اس معاملے کو تحمل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایوان کے اندر پولیس داخل ہوئی۔ یہ معاملہ اب صدر پاکستان کے پاس چلا گیا ہے، عدالت صدر سے نہیں پوچھ سکتی۔ یہ صورت حال بہت خطرناک ہے، پارلیمنٹ اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صدر آئین کے تحت کسی کو جواب دہ نہیں۔ صدر کو پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ وقت کے اندر فیصلہ کریں۔ اس معاملے کو صبر سے دیکھنا چاہیے یہ سب کے لیے بہتر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مقدمے میں حمزہ شہباز کے وکیل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئین کو پامال کیا جا رہا ہے، صدر جان بوجھ کر فیصلے پر عمل نہیں کر رہے۔‘ عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیوں نہ آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے کسی فرد کو حلف کے لیے نامزد کر دے؟‘
اشتر اوصاف نے مزید کہا تھا کہ ’حمزہ شہباز سے حلف نہ لے کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ آئین اور قانون سے بالا ہے تو اس کی غلط فہمی ہے۔‘
گورنر ہاؤس لاہور میں متعدد بار وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف برداری کی تقریب کی تیاریاں کی گئیں، جنہیں بعدازاں منسوخ کرنا پڑا۔
بدھ کو سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ ن حمزہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’گورنر اور صدر آئین کو داغ دار نہ کریں۔ ہماری انا چھوٹی ہے، آئین سب سے بڑا ہے۔‘
نو منتخب وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک ہی آدمی ہے جو قانون اور آئین کو پامال کرتے ہوئے لوگوں کو ہدایت دے رہا ہے کہ اداروں پر چڑھ دوڑو۔‘