پنجاب کا آئینی بحران بھی عدالت کے ذریعے ختم ہوگا: تجزیہ کار

تجزیہ کاروں کے مطابق صوبہ پنجاب کا آئینی بحران جلد ختم ہونے کی توقع نہیں بلکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی عدالتوں تک جانے کا امکان ہے۔

رینجرز  کا اہلکار پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی کے انتخاب کے موقع پر 16 اپریل 2022 کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر موجود ہے (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایوان میں ان دنوں سیاسی کے ساتھ آئینی بحران بھی شدت اختیار کرچکا ہے۔ وزیر اعلی کا انتخاب ہونے کے باوجود تلخیاں مذید بڑھتی جارہی ہیں۔

ایک طرف گورنر پنجاب کے نومنتخب وزیر اعلی سے حلف نہ لینے کا معاملہ عدالتوں تک جا پہنچا ہے اور وزیر اعلی عثمان بزدار کے استعفے کی قبولیت پر بھی قانونی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب صوبے کی قانون ساز اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہی کے خلاف مسلم لیگ ن اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد جمع کرا رکھی ہے۔

اسمبلی کے حالیہ اجلاس پر بھی تنازع ختم نہیں ہو پایا ہے جو کہ قائد ایوان کے انتخاب کے لیے بلایا گیا تھا۔

16اپریل کا اجلاس ڈپٹی سپیکر نےغیرمعینہ مدت کے لیے موخر کیا تو سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسی 40 ویں اجلاس کا سیشن دوبارہ 28 اپریل کو طلب کر لیا ہے۔

سیکریٹری اسمبلی کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں پر ووٹنگ آئینی طور پر سات دن کے بعد کرائی جاسکتی ہے لہذا اس معاملہ پر ابھی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ جلدی حل ہونے کی توقع نہیں بلکہ فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں لہذا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی عدالتوں تک جانے کا امکان ہے۔

اُدھر ایوان میں عددی اعتبار سے سپیکر چوہدری پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا قانونی طریقہ کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی نے کہا کہ ’پہلے تحریک انصاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف جمع کرائی گئی تو قانونی طور پر پہلے اس پر ووٹنگ ہوگی اور جس اجلاس میں ووٹنگ ہوگی اس کی صدارت سپیکر چوہدری پرویز الہی کریں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر کی جانب سے 16 اپریل کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا تھا جو ان کا اختیار نہیں تھا کیوں کہ گورنر کی جانب سے بلایا گیا اجلاس ڈپٹی سپیکر غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کر سکتے لہذا اب سپیکر نے آئینی طور پر وہی 40 واں اجلاس 28 اپریل کو دوبارہ طلب کرلیا ہے اور ڈپٹی سپیکر نے بھی اتفاق کیا ہے۔‘

محمد خان بھٹی کہتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کے بعد سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ بعد میں ہوگی جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر نہ ہونے کی صورت میں پینل آف چیئرمین کرسکتے ہیں۔

آئندہ بلائے گئے اجلاس کے ایجنڈے پر دونوں میں سے کسی کے بھی خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل نہیں اس لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔

سابق نگران وزیر اعلی اور تجزیہ کار حسن عسکری نے اس معاملہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے پی ٹی آئی اراکین نے ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا پھر ڈپٹی سپیکر کے حکم پر پولیس ایوان میں داخل ہوئی اور چوہدری پرویز الہی پر تشدد ہوا لہذا دونوں طرف تلخیاں عروج پر ہیں۔ معاملہ افہام و تفہیم سے سلجھنے کی امید نہیں یہ معاملہ بھی عدالت میں ہی جائے گا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’جس طرح حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں یہ معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، تحریک عدم اعتماد کی جہاں تک بات ہے اس پر ووٹنگ ہونے کے بعد بھی ایوان کا ماحول کشیدہ ہی رہے گا جس طرح وفاق میں پی ٹی آئی نے استعفے دے دیے اور حکومت کو آذاد ماحول مل گیا لیکن پنجاب میں ایسی صورت حال نہیں بنے گی۔‘

دونوں میں سے کون کامیاب ہوسکتا ہے؟

حسن عسکری نے کہا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اگر بات کریں تو اس وقت مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل ہے لہذا ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی کیوں کہ پی ٹی آئی کے پاس زیادہ اراکین کی حمایت نہیں رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی کے خلاف مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی تحریک عدم اعتماد آسانی سے کامیاب ہوجائے گی لیکن تحریک انصاف کے پنجاب سے مستعفی نہ ہونے پر حالات مسلسل خراب رہیں گے اور ایوان میں اجلاس منعقد کرانا مشکل رہے گا۔

سینیئر اینکر بابر ڈوگر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح تحریک انصاف کے گورنر پنجاب، وزیر اعلی پنجاب کے استعفے کا معاملہ اٹھا رہے ہیں اور سپیکر اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نو منتخب وزیراعلی کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حالات میں لگتا ہے کہ معاملہ آسانی سے حل نہیں ہوگا تاہم اکثریتی اراکین کیوں کہ اب مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں تو چوہدری پرویز الہی کو جس طرح وزارت اعلی کے انتخاب میں شکست ہوئی اگرچہ انہوں نے بائیکاٹ کیا تھا اسی طرح سپیکر کے طور پر بھی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔‘

بابر ڈوگر کے بقول جس طرح آئینی پہلو نکال کر پنجاب میں مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کو مشکل وقت دیا جا رہا ہے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں لیکن معاملات ایوان کی بجائے عدالت میں ہی حل ہوں گے جس سے آئینی بحران ختم ہونے کی امید تو ہے مگر جلدی نہیں بلکہ اس میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست